کالمز

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

خواتین و حضرات! ریاست جموں کشمیر کے اس پار کے سیاستدانوں نے نہ صرف اپنی کریڈیبلٹی بالکہ قومی تشخص کو بھی پامال کر دیا ہے۔ حالیہ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے بعد جن سیاستدانوں کی عوام میں کافی مقبولیت تھی اس کا گراف صفر تک پہنچ چکا ہے۔اگرچہ سیاستدان بڑے مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں اور آخر دم تک شکست کو فتح میں بدلنے کا گر جانتے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں آزاد کشمیر کے خطے میں سیاستدانوں کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کو کارنر کرنے کے لئے چوہدری انوارالحق صاحب کی حکومت کی قربانی بھی دینا پڑی اور پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر فیصل ممتاز راٹھور کو قائد ایوان چنا۔ لیکن جن مقاصد کے لئے ایسا کیا گیا شائد وہ حقیقی معنوں میں حاصل نہ کئے جا سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیصل راٹھور کا انتخاب ہر لحاظ سے بہتر اور موذوں ہے لیکن شائد وہ بھی گزشتہ واقعات کے کلنک کو دھونے میں صحیح طرح سے کامیاب نہ ہو پائیں گے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ 7/8ماہ بعد ریاست میں جنرل انتخابات ہونے ہیں۔ ان انتخابات میں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں غالب کے شعر کے مصداق,,کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب،، کے تحت عوام کے اندر کس کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے جائیں گے؟ کیا گزشتہ 4سالوں میں 4وزرائے اعظم کی تبدیلی،عوامی ایکشن کمیٹی کا زبردست احتجاج اور سیاستدانوں کے ناکام پاور شو انہیں عوام میں پذیرائی دے پائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر حالیہ سالوں میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کسی بھی سیاستدان نے کشمیر کاز کو دنیا کے کسی بھی فورم پر موثر انداز میں پیش نہیں کیا۔ایم ایل اے صاحبان نے کالے پائپوں،ٹینکیوں،کچی سڑکات،من پسند افراد کو سکیمیں اور اپنے لاڈلوں کے تبادلے اور چھوٹے موٹے کام کروانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ لیکن ہماری سیدھی سادھی اور بھولی بھالی عوام الیکشنز کے اعلان کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی طرح آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے مارنے شروع کر دیں گے۔کالی کوٹیوں اور سفید کپڑوں کے ساتھ سیاستدان اپنے خوشامدی ٹولے کے ہمراہ لوگوں کی تعزیتوں،دعاؤں،خیراتوں اور ختموں میں شرکت کرنا شروع کر دیں گے۔ بس اتنی سی بات پر سیدھے سادھے لوگ پرانے زخم بھول کر پھر سے انہی سیاستدانوں کے دم چھلے بن جائیں گے جو گزشتہ نصف صدی سے جونک کی طرح عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
تلخی تحریر اگرچہ اچھی بات نہیں لیکن دل جلا ہو تو کتھارسس نکالنے کے لئے بعض اوقات لکھنے والا سخت الفاظ قلمبند کر جاتا ہے۔ ابھی یہی صورت حال میرے دل و دماغ پر بھی غلبہ پائے ہوئی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے سیاستدانوں کے لئے,,ترپن ڈنگر،،۔۔۔۔,,کالا وی کتا تے چٹا وی کتا،، جیسے سخت ترین الفاظ استعمال کئے گئے۔ جمہوری روایات کے تحت ہم ان غیر پارلیمانی اور احمقانہ الفاظ کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن سکے کے دوسرے جانب دیکھا جائے تو یہ باتیں ہمارے معزز سیاستدانوں کی شان کے مطابق ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے اور معتبر سیاستدان صبح الگ بیان دیتے ہیں اور شام کو ان کی زبان الگ ہوتی ہے۔ اس سب کے باوجود ہم,, 53اور کالا وی اور چٹا وی،، کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ اور ایسی زبان استعمال کرنے والوں کو تنبیہہ بھی کی جاتی ہے کہ اس پر امن ریاست کے ماحول کو اس طرح کی غیر اخلاقی باتوں سے خراب نہ کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ گزشتہ ستر سالوں میں جب غازی ء ملت سردار محمد ابراہیم خان،مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان، کے ایچ خورشید،ممتاز حسین راٹھور اور سردار سکندر حیات جب سیاست میں تھے تو لوگوں نے ان کے لئے اس طرح کے جملے کیوں استعمال نہیں کئے۔ بے شک وہ بھی انسان تھے کوئی دودھ سے دھلے ہوئے نہیں تھے لیکن انہوں نے سیاسی رواداری اور اخلاقی وقار قائم رکھا تھا۔
قارئین! جب بھی دنیا کے کسی خطے میں تبدیلی کی ہوائیں چلی ہیں تو ان میں اکثریت عوام کی شراکت داری رہی ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ واقعات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ خدا نخواستہ ریاست کے اندر کوئی بڑی تبدیلی آنے کے امکانات ہیں۔اگرچہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے لیکن کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ آزاد کشمیر کے انتظامی ڈھانچے کو بدلا نہیں جا سکتا۔اگر عالمی جمہوریت کا دعویدار بھارت جو کہ پاکستان سے 5گنا بڑا ملک ہے اور مقبولیت کے اعتبار سے بھی دنیا میں اس کا گراف ہم سے بلند ہے۔ لیکن وہاں وہ مقبوضہ کشمیر کے اندر اپنی مرضی کی اصطلاحات نافذ کر سکتا ہے تو پھر کاکم بدہن کہیں ہمارا بڑا بھائی پاکستان اس دکھتی رگ یعنی,,کشمیر،، سے ہمیشہ کی سردردی کے لئے اسے عبوری صوبہ یا گلگت بلتستان کی طرز کا انتظامی ڈھانچہ بھی بنا سکتا ہے۔ پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ پھر ہمارے قوم پرست اور سیاستدان دونوں پر سکون ہو جائیں گے۔
صاحبو! اداریے کے توسط سے بتلانا مقصود ہے کہ اس سے قبل کہ ہماری آئینی اور ریاستی حیثیت ختم ہو جائے ہمیں بحیثیت فرد،قوم،سیاستدان،بیوروکریٹ اور ایک عام آدمی ہونے کے حوالے سے اپنے مزاج بدلنا ہوں گے۔خاص طور پر ہمارے اشرافیہ جو سرکاری پروٹوکول،سرکاری ڈرائیورز،سرکاری گاڑیوں،سرکاری محافظوں،سرکاری پٹرول اور ہوٹرز کی باں باں کے ساتھ عوام کا استحصال بند کریں اور اپنے ٹھیکیداروں کی چاپلوسی چھوڑ دیں۔ کیونکہ اگر ریاست کا وجود رہے گا تو ہم سب یہاں امن و چین سے رہ پائیں گے ورنہ ہمارے سپریم کورٹ پاکستان اور الیکشن کمیشن اسلام آباد میں ہو گا۔ یہاں محض نام نہاد اسمبلی ہال،وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس بن جائیں گے۔ایسی صورت حال میں بے شک اگر ہمیں سونے کی روٹیاں بھی کھلائی جائیں تو ہم غلام تصور ہوں گے۔ اس لئے بالخصوص سیاستدانوں اور بالعموم عوام کو اپنے الفاظ و افعال پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ورنہ غالب دو سو سال پہلے شائد اسی لئے کہہ گئے تھے۔۔۔۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

Related Articles

Back to top button