کالمز

آزاد کشمیر: اختیار، نمائندگی اور آئینی سچائی — ایک کھلتا ہوا روزن

احسن اقبال صاحب کا حالیہ عندیہ کہ“آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو قومی مالیاتی کمیشن (NFC) میں شامل کیا جانا چاہیے”یقیناً خوش آئند ہے۔ اس کی بنیاد SDPI (sustainable Development Policy Institute) کی رپورٹ ہے جس میں میں کہا گیا ہے کہ موجودہ (7ویں) NFC ایوارڈ میں آبادی کو ترجیح دینے کی وجہ سے صوبائی اور خطّی ناانصافیاں گہری ہو چکی ہیں۔ وہ تجویز کرتی ہے کہ آئندہ ایوارڈز میں آبادی کا وزن کم کیا جائے (مثلاً 60 ٪ یا اس سے کم) اور اس کے بدلے میں انسانی ترقی، غربت میں کمی، ماحولیاتی تحفظ، محصولات بڑھانے، اور دیگر ترقیاتی اشاریوں کو اہمیت دی جائے۔بڑی خوش آئیند اپروچ ہے – اسی پس منظر میں احسن اقبال صاحب نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا زکر کیا ہے – اگر ان امور میں SDPI“جغرافیائی محلِ وقوع اور حساسیت والے علاقے“ بھی شامل کر لیتی جو یقینآ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ہیں تو اور زیادہ اچھا ہوتا –
احسن اقبال صاحب کی بات میں ایک سنجیدہ اعتراف جھلکتا ہے کہ یہ خطّے وفاقی مالیاتی نظم کا حصہ تو ہیں، مگر اس میں ان کی شمولیت اور نمائندگی صفر کے برابر ہے۔ یہ اعتراف ایک نیا روزن ہے جس سے تازہ ہوا کا جھونکا دکھائی دیتا ہے — مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہی کافی ہے؟ یا یہ محض اپنائیت کا 0.0000001% حصہ ہے، جبکہ باقی 99.9999999% وہیں کا وہیں چھوڑ دیا گیا ہے؟
آزاد کشمیر: عملی طور پر ایک صوبہ — آئینی طور پر“نہ ادھر نہ اُدھر”
آزاد کشمیر کو کیبنٹ ڈویژن کی 1971 کی نوٹیفکیشن کے تحت وہی طرزِ حکمرانی دیا گیا ہے جو ایک صوبے کو دیا جاتا ہے۔ اس نو ٹیفکیشن کو آزاد کشمیر کے آئین 1974 کی دفعہ 19 کا حصہ بنا یا گیا ہے، جس نے AJK کونسل اور حکومتِ پاکستان کو انہی امور کے اختیارات دیے جو پاکستان کے آئین کی Federal Legislative List میں درج ہیں۔
آزاد کشمیر کے آئین کا شیڈول III (Third Schedule) بالکل وہی ہے جو پاکستان کے آئین میں وفاقی فہرست ہے۔ یعنی:
جو قانون سازی اسلام آباد وفاق کے لیے کرتا ہے، اسی قانون سازی کا اختیار آزاد کشمیر میں بھی اسلام آباد کے پاس ہے۔
اگر اسے آئینی زبان سے ہٹ کر عام فہم الفاظ میں بیان کریں تو حقیقت یوں بنتی ہے:
• پاکستان کے آئین کا حصہ(Federation of Pakistan (III)
۰ حصہ(iv) PROVINCES
۰ حصہ (V) Relations between Federation and Provinces
۰حصہ(Finance etc. (vi
حصہ (viii) —Elections
جس طرح پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان پر لاگو ہوتے ہیں …
تقریباً اسی طرح ان لکھے طور آزاد کشمیر پر بھی لاگو ہوتے ہیں — لیکن بغیر کسی آئینی حیثیت اور نمائندگی کیاور یہ صرف کشمیر کے متنازعہ ہونے کی دلیل پر –
یہ دنیا کی واحد سیاسی و آئینی مثال ہے جہاں:
قانون، پالیسی، ٹیکسیشن، بجٹ، اور فیصلہ سازی ایک قوم پر تو عملی طور پر نافذ ہو — مگر وہ قوم نہ اس فیصلے کی حصہ دار ہو، نہ شہری، نہ نمائندہ!
ستم بالائے ستم: آزاد کشمیر کی اسمبلی کا چوتھائی حصہ غیر رہائشی افراد پر مشتعمل ہے –
مزید عجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ جن چند امور پر آزاد کشمیر کی اپنی اسمبلی کو اختیار دیا گیا ہے، وہاں بھی:
اسمبلی کی 1/4 نشستیں غیر رہائیشی پاکستانی شہریوں کے لیے مہاجرین کشمیر مقیمُ پاکستان کے نام پہ مختص ہیں جو آزاد کشمیر میں رہتے ہی نہیں۔
دنیا کی کوئی جمہوریت اپنے خطے پر ایسا“غیر مقامی لیڈر”مسلط نہیں کرتی۔
یوں AJK کی اپنی قانون ساز اسمبلی بھی عوامی حاکمیت کا حقیقی مظہر نہیں بن پاتی۔
نہ پاکستان کا حصہ — نہ اس کی شہریت — نہ نمائندگی
یہ بھی ایک حیرت انگیز تضاد ہے کہ:
• آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی حصہ نہیں
• آزاد کشمیر کے لوگ پاکستانی شہری نہیں
• اور نہ آزاد کشمیر کسی پاکستانی پارلیمانی ادارے— نہ قومی اسمبلی، نہ سینیٹ، نہ کونسل—میں نمائندگی رکھتا ہے
مگر دوسری طرف:
• اس پر پاکستان کے فیصلے لاگو ہوتے ہیں
• اس کے وزیر اعظم کے لیے بھی“اہلیت کی شرط”الحاق پاکستان سے مشروط ہے –
• اس کے بجٹ اور ترقیاتی پالیسیوں کا تعین بھی پاکستان کرتا ہے
یہ وہ“آئینی خلا”ہے جس کی مثال اقوام متحدہ کے کسی ریکارڈ میں موجود نہیں لیکن آزاد کشمیر کے آئین اور حکومتی پریکٹس سے آشنا ہر دانا و بینا اس سے واقف ہے –
77 سالہ دلیل:“کشمیر کا مسئلہ متاثر ہوگا”— کیا واقعی؟
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئینی حقوق روکنے کے لیے ایک بودی، کمزور، بیسرت دلیل 77 برس سے استعمال ہو رہی ہے کہ:
اگر انہیں آئینی حیثیت دی گئی تو کشمیر کا مقدمہ متاثر ہوگا۔
سوال یہ ہے:
• گزشتہ 77 سال میں عملی طور پر AJK اور GB پر وفاقی فیصلے نافذ کرنے سے کشمیر کا مسئلہ متاثر نہیں ہوا تو ۰۰۰۰۰
• صرف نمائندگی دینے سے کیسے ہوگا؟
• بغیر اختیار کے تمام پالیسی سازی اور فیصلہ سازی اسلام آباد سے ہوتی رہے، تو کیا یہ بہتر ہے؟
گز شتہ ایک ڈیڑھ سال سے جوائینٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ہمہ گیر مظاہروں اور مطالبات سے نپٹنے کے لئے مرکز کی ہی اعلی سطحی قیادت نپٹتی بھی رہی مانتی بھی رہی مقامی حکومت بے بس بنی اور علاقاء قیادت غائب رہی- کیا یہ نئی نسل کی اس آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام سے بے زاری نہیں جس کا دفاع حکومت پاکستان ہی کررہی ہے- خدا را ہوش کے ناخن لیں –
• علیحدگی پسندی کیوں بڑھی؟ کہیں اس“نیم آئینی، نیم صوبائی، نیم خودمختاری”نے اس کو ہوا تو نہیں دی؟
کیا تعمیر و ترقی کی دوڑ میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو شامل کرنے سے کشمیر کا مسئلہ ختم ہو جائے گا؟
کشمیر کا مقدمہ تو شہیدوں کے خون، غازیوں کی جرا?ت، اور کشمیری عوام کے ناقابلِ تسخیر عزم سے زندہ ہے — پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی وابستگی ان افسوس ناک حقائق کے باوجود سیسہ پلاء دیوار کی طرح ہے – یہ کسی آئینی شق کی وجہ سے نہیں۔ آئینی رشتہ شب و روز کے نظم و نسق چلانے کے لئے ہوتا ہے اس کا ملکوں یا علاقوں کے مستقبل کے ساتھ کوء تعلق نہیں ہوتا – اگر ہو بھی تو ان علاقوں نے بہر حال پاکستان میں ہی رہنا ہے – عدم تعلق علاحدگی پسندی کو پروان چڑھاتا رہے گا جو ملک کے لئے یقینآ سیکیورٹی رسک ہے –
سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ — کیا اس کا بھی وہی مقدر ہے؟
سرتاج عزیز کمیٹی نے 2017 میں ایک جامع، قابلِ عمل حل تجویز کیا تھا کہ:
جی بی کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کو بھی صوبائی یا نیم صوبائی حیثیت دی جائے اور بااختیار کیا جائے
• دونوں خطوں کو قومی فیصلہ سازی اور وفاقی وسائل میں مؤثر حصہ دیا جائے
مگر وہ رپورٹ آج بھی“طاقِ نسیاں ”کی گرد میں دفن ہے۔
اگر آج Ahsan Iqbal صاحب نے ایک روشندان کھولا ہے — تو اس کی روشنی تب مکمل ہوگی جب:
صرف ففانس کشن ہی نہیں بلکہ آئین کی حصہ iii- iv – v- vi-viiiکو مناسب، حسب حال، زمینی حقائق سے ھم آھنگ اور ان علاقوں کے متنازعہ کردار کو بحال رکھتے ہوئے ترامیم کے ساتھ آئینی دروازہ کھولا جائے؛
• نمائندگی حقیقی ہو
• وفاقی فیصلے باہمی رضامندی سے ہوں
• اور AJK/GB کو وہ آئینی اور عملی حیثیت دی جائے جس کے بغیر یہ خلا ہمیشہ بے چینی، بیاختیاری اور عدم استحکام پیدا کرے گا۔
ستتہر سال اس متنازعہ کیفیت کے پروردہ اور مسفید ہونے والے سیاست دان اس کی مخالفت ضرور کریں گے – انہوں 1960 میں بھی آزاد کشمیر میں الیکشن کی مشق کی مخالفت کی تھی، پارلیمانی نظام کی بھی مخالفت کی تھی کیونکہ نئی صورت حال سے ڈرتے ہیں ——— – آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا، منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں والی بات ہے -اگر آج آپ آگے نہ بڑھ سکے تو چار سال بعد کی عوامی ایکشن کمیٹی ایسے مطالبے سے سامنے آئے گی جس کے آپ اور ملک متحمل نہیں ہو سکتا – اس میں آج کی کمیٹی کی طرح کے پختہ کار لوگ نہیں ہونگے –
یہ لمحہ ایک آغاز ہے، انجام نہیں –
احسن اقبال صاحب نے راست سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ:
حقوق جزوی نہیں ہوتے — یا ہوتے ہیں، یا نہیں ہوتے۔
مالیاتی کمیشن میں حصہ ایک خوش آئند شروعات ہے،
مگر اصل ضرورت وہ آئینی پیکج ہے جس سے حکومت حقیقی معنوں میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بااختیار بنائے• عوام کی نمائیندگی حقیقی ہو اور فیصلہ ساز میز پر موجود ہوں اور 77 سالہ آئینی خلا اور ا بہام ختم ہو-
ان حقائق کا ادراک کریں –

Related Articles

Back to top button