آؤ فیصل راٹھور، جمہوریت کو قتل ہونے سے بچا لو

راجا فیصل راٹھور جیسے بالغ جواں مرد کا انتخاب بہت بروقت اور اچھا ہوگیا، عوام اور نوجوانوں کا غصہ اور جنون کسی قدر صرف اس انتخاب کی بنا پر تھما، ولولہ کچھ کم ہو گیا، یہ اس لئے بھی ہوا کہ فیصل راجا ممتاز حسین راٹھور جیسے مقبول، معتبر اور عوامی راہنما کا لخت جگر ہے، وہ ممتاز راٹھور جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستا ہے،اگر پیپلز پارٹی کی زبان میں لکھوں تو راجا ممتاز راٹھور آزاد جموں کشمیر کا بھٹو تھا، جو آج بھی لوگوں کی سوچوں،ان کے دلوں میں زندہ ہے، اب ان کی آگے کی روحانی و احساساتی زندگی راجا فیصل ممتاز راٹھور کے ہاتھ میں ہے، یہ اب فیصل بھائی کا عمل ثابت کرے گا کہ ممتاز راٹھور مزید کتنی دہائیاں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے، ورنہ حکومت ایکشن کمیٹی کے مابین ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد میں سستی اور بے وقت کے رجیم چینج کے غلغلے نے عوامی غصہ اتنا بڑھا دیا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کی غالب اکثریت،ہر پیر وجواں کا یہ آخری جذبہ اور فیصلہ تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت جو غریب کو دیتی کچھ نہیں،بس ہر دفہ ہر بار کچھ نہ کچھ چھین لیتی ہے، اسے مل جل کر ایک بلوہ کر کے قتل کر دیا جائے، پھر چاہے کوئی آمریت آئے،کوئی مارشل لا آئے یا کوئی تیسرا نظام آجائے، قارئیں یہ پہلی بار ہوا کہ میں بھی اس قتل سے متفق تھا،یہ قتل ہمارے لئے کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہوگی، ہم تو ایک طرح سے عادی اور خاندانی پیشہ ور قاتل کنفرم ہو چکے ہیں، جی جی میں اپنی اور آپ سب ہی کی بات کر رہا ہوں،کیوں جی باتب بری لگ رہی ہے، ہاں بات تو بہت بری ہے اور سب کے سامنے بیان بھی نہیں کی جاسکتی، لیکن دوستو ہم حقیقت سے کب تک نظریں چراتے رہیں گے،کیا ہم اتنے بزدل ہو گئے ہیں کہ اب سچائی کا سامنا بھی نہیں کر سکتے،ہم نے سب سے پہلے نظام خلافت کا خاتمہ کیا، پھر ملکویت کو دھوکے سے قتل کر ڈالا، شورائی نظام تباہ کردیا،بنیادی جمہوریت کا سسٹم غائب ہوا، صدارتی سسٹم کا ہم نے اپنے سواد کیلئے ”مرڈر“ کیا،ہم نے اپنی،ثقافت، اپنی رسومات،روایات،اخلاقیات، پوری تہذیب،سب کی تو جان لے لی ہے، اور پھر بھی ہم خود کو قاتل کہلوانے سے ڈرتے ہیں،ہم قتل کرنے سے نہیں ڈرتے،مگر قاتل کہلانے سے ڈرتے ہیں،ہم نے صرف یہی قتل نہیں کئے ہم نے ادب و آداب،باہمی محبت و پیار،دوستی و بھائی چارہ،ہمدردی و غمگساری اور ساری رواداری سب کا گلا گھونٹ ڈالا، بھیا جی بہنو، بچیو، ماسیو، خالاؤ،چچاؤ اور بڑے تایا جی،یہ درست ہے کہ ہم بہت ہوشیار نکلے ہیں کسی کو کان و کان خبر نہیں ہونے دی اور اب بھی بزعم خود اس جعلی معاشرے میں جعلی اور جھوٹی شرافت کا لبادہ اوڑھے معزز بنے گھوم رہے ہیں، مگر ہماری حقیقت کیا ہے؟ میرا مطلب کی اصلیت کیا ہے،اس کا ہمیں خود تو ادراک ہونا چاہیے، اچھا اگر میں تمہید ہی باندھتا رہا تو آئینہ دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں ہی چندھیا جائیں گی،اصل منصوبہ بندی مطلب سازش کی طرف آتے ہیں،جمہوریت کے قتل کی سازش، دیکھیے اس بی بی جمہوریت کے بارے میں علامہ اقبال نے تخلیق پاکستان سے بہت پہلے کے یورپی تجربات کے بعد کہہ دیا تھا کہ”مغربی تہذیب کے انڈھے ہیں گندے،انہیں اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دو“ لیکن ہم نے وہ انڈے لا کر ٹوکرے میں رکھے اور بچے نکلوانے کیلئے ان انڈوں پر مرغی،،، ”انفیکٹ“ مرغا بٹھا ڈالا، اب ان انڈوں سے جو بچے نکلے اور جو پر پُرزے انہوں نے نکالے وہ سب تو آپ نے دیکھ ہی رکھے ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیایہ اپاہج،یہ لنگڑی لولی،یہ پولیو زدہ جمہوریت ہمیں مزیدپالے رکھنی ہے؟ بعضے نالائق، نااہل، اور نابکار لوگ نظام کی اس گندی نسل کوباقی رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ خود ان کی بقا اسی میں مضمر ہے، کسی صاف ستھرے نظام میں ان کو ان کی نالائقی، اُجڈ پن اورجاہلیت کی وجہ سے کوئی حیثیت،کوئی وقعت ملنے والی نہیں،اس لئے وہ یہ جانتے ہوئے کہ برائلر مرغی مضر صحت ہے عوام کو برائلر کھلائے جا رہے ہیں اور خود دیسی مرغی کا سوپ ٹھنڈی سردی میں گرم کمروں میں بیٹھ کر نوش جاں کر رہے ہیں،یہ درست ہے کہ اس وقت ہمارے پاس دستیاب نظام جمہوری نظام ہی ہے لیکن اس کو اس کھلی خریدو فروخت والے طرز انتخاب سے متناسب نمائندگی پر منتقل کر کے تھوڑا بہتر کیا جا سکتا ہے، لوگوں میں تو وقت اور ایکشن کمیٹی ٹائپ اتحادوں نے خاصی آگاہی پیدا کر دی ہے،اب صرف آگہی باققی رہ گئی ہے جس دن عوام کو وہ حاصل ہو گئی وہ اس سارے سیاسی نظام کا ”مکو ہی ٹھپ دے گی“ لیکن ہمیں اپنی ریاست یا پیارے پاکستان میں بد امنی اور انتشار نہیں چاہیے،امن چاہیے ہمیں تعلیم بالغاں کی طرح ایک ”تعلیم سیاستداناں“ نام کا پرو گرام شروع کرنا چاہیے جہاں ہم اپنے پرانے بڈھے سیاستدانوں کی ووٹ،بنیادی حقوق اور ”گد گورنس“ (گڈ گورنس کا سکہ تو ابھی ناپید ہے) کے حوالے سے تر بیت کر سکیں۔اور پہلے مرحلے پر کم از کم اس چھوٹی سی طفیلی ریاست آزاد جموں کشمیر کو جنت نظیر نہ سہی ایک مصنوعی سی جنت نما جگہ کا تو روپ دے سکیں، اس وقت ہماری جنت نظیر کی سیاست کس قدر جہنمی نقشہ پیش کر رہی تھی اس پرہمیں کچھ کہنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے،عوام و خواص سب بہتر جانتے ہیں،ابھی میری آگاہی بھی ابھی آگہی کے درجہ پر نہیں پہنچ پائی ہے،یعنی ابھی میں بھی سمجھ اور طے نہیں کر پایا ہوں کہ اگر یہ جمہوریت اور اس کے پس پردہ فنکار نہیں تو پھر کیا؟ کونسا نظام ہونا چاہیے، اسلامی نظام سے تو ہم فی الوقت اتنے دور ہیں جتنے بنی اسرائیل (موسیٰ علیہ سلام کی قوم) تھی،جو آسمان سے من و سلوااترنے کے باوجود خوش نہیں ہو پاتی تھی، خوش توخیر ہم بھی کسی حال میں ہو نہیں پاتے،لیکن اس حال میں بھی ہم بحیثیت ملت زیادہ دیرتک قائم نہیں رہ سکتے، صدارتی نظام کا بھی ہم فی الوقت رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، لیکن بحرحال تبدیلی تو ضروری ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ آگے ایسا نظام نہیں چل سکے گا، ہمیں کوئی متبادل چاہیے اب کیا ہم چین اور روس کے نظام کی طرف دیکھیں، پاکستان نے چھوٹا موٹا سیٹلائٹ بنا لیا ہے تو کیا کوئی ”پارلیمانی“ وفد مریخ وغیرہ کی طرف دوڑائیں، جو وہاں جاکر اگر ہوٹلوں میں انجوائے منٹ وغیرہ وغیرہ سے فارغ وقت نکال سکے تو وہاں کا نظام چیک کر لے، ہم 1947ء کے بعد سے اب تک درجنوں کمشنریاں اور اضلاع وغیرہ بنا چکے ہیں کیا اب ان سارے اضلاع کو صوبوں کا درجہ دے ڈالیں بلکہ ان سب کو اندرونی خود مختار ریاستوں کے مقام پر فائز کر کے پھر ایک یونائٹڈ سٹیٹس آف پاکستان بنا ڈالیں، اور امریکہ کے برابر آجائیں، تو پھر شاید وہ بار آور ہو اور ہمیں جمہوریت کا پھل مل سکے، لیکن سیانے کہہ گئے ہیں کہ یہ جمہوریت بھی ”آملوں کی چِھٹ“ کی طرح ہوتی ہے جس کا سواد وقت آنے پر بڑی دیر سے ہی آتا ہے، لیکن چلیں اچھا ہوا کہ فی الوقت صدر ذرداری اور میاں شہباز شریف نے آزاد جموں کشمیر کی وزارت عظمیٰ کیلئے ایک بالغ جواں مرد اور عزم و ہمت کے پیکر راجہ ممتاز راٹھور کے صاحبزادے فیصل راٹھور کووزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کر دیا ہے، جس سے اس کے جری باپ کی نسبت سے عوام نے فوراََ ہی بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں، اب دیکھیے وہ عوام کی توقعات پر کس طرح پورا اترتے ہیں، اور ان کی محرومیوں کا کیسے ازالہ کرتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح اس کرسی پر بہت مجبور و بے بس ہونگے،اس وقت ممتاز حسین راٹھور کے درپے لبریشن لیگ کی اس وقت کی قیادت تھی،اب فیصل بھائی کو مسلم لیگ کی صورت میں بیریوں کا سامنا ہو گا،اِن کی مشکلات نسبتاََ تھوڑی زیادہ ہونگی،کیونکہ اب کی بار اس ہی لبریشن لیگ کے کل پرزے نئے روپ میں علی لا اعلان سامنے کھڑے اپوزیشن کر رہے ہیں، جب کہ اُس وقت ممتاز راٹھور کے مقابل سادہ مزاج اور روایات پرست مسلم کانفرنس ہو کرتی تھی، ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں فیصل راٹھور کے ساتھ ہیں کہ ان کا یہ کڑا امتحان ہے، سب سے بڑا کام 80فیصد بجٹ کی علاقہ و کیمیونٹیز وائز منصفانہ تقسیم ہے، اس کے بعد جن ممبران اسمبلی کے منہ کو بھاری فنڈز کاخون لگ چکا ہے، ان کو مطمعن کرنا ہے،چوہدری انوارالحق کی ساری سختیوں کے باوجود انتظامیہ دو رنگی بلکہ دوغلی ہو چکی ہے، اخلاقی خرابیوں کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں،مالیاتی کرپشن تو آزاد بیورو کریسی کی گھٹی میں پڑی ہے،سارے سرکاری ملازمین اس غریب ریاست سے کبھی پنجاب، کبھی خیبر پختونخواہ تو کبھی سندھ کی ترجیحات کے نام پر سارے وسائل نگل لینے کو بے چین ہیاور کئی ایک محکمے احتجاجوں اور سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، پریس میڈیا کو آپکے پیش رو وزیراعظم نے بے وجہ ہی سخت ناراض اور نالاں کر رکھا ہے، سوشل میڈیا کا بھروسہ کسی وقت بھی مسافر کو کھائی میں گرا سکتا ہے،اس لئے پریس میڈیا کا اعتماد بحال کرنا،اور ان کیلئے مختص فنڈز ان پر ہی استمال کرناجو گذشہ دو سالوں میں صرف ادھر ادھر ٹرانسفر ہی کئے جاتے رہے ہیں کو بھی آپ کیلئے ایک بڑا چیلنج ہو گا، پھر لینڈ مافیا، ٹمبر مافیا،بزنس مافیا،ہیلتھ کا انرونی و بیرونی مافیا اورہر محکمے اور اعلیٰ اداروں کے اندر بھی نوکری مافیا اور استحصالی مافیاز قدم جمائے بیٹھے ہوئے ہیں،ان سے ٹکرانا ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ جہاد کرنا ہو گا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان سب کو ممتاز راٹھور کا بیٹا دیکھ بھی لے گا اور سمبھال بھی لے گا، اب اصل اور عوامی مسئلہ جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے توسط سے عوام سے کئے گئے معاہدوں پر عمل درآمد کا ہے،،،فیصل بھائی آپ جانتے ہیں کہ باہر عوامی حلقوں میں افواہیں گرم ہیں کہ یہ ساری حکومتی تبدیلی اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لئے لائی گئی ہے، حالانکہ گارنٹرز بہت بارعب اور باوقار ہیں وہ اس معاہدے سے کسی کو انحراف کرنے کا سوچنے بھی نہیں دیں گے، لیکن آپ کی ممد و معاون سیاسی جماعتیں ضرور آپ اور معاہدوں کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی، ان کا کیا کرنا ہے اور ان سارے معاہدوں پر جو ایک وقت میں آپ کے والد کا بھی خواب اور نعرے ہوا کرتے تھے انکو کیسے پورا کرنا ہے، یہ بھار اب آپ کلے سر ہے، میں اس میں آپ کو مفت مشرے تو دیتا رہوں گا،لیکن کام سارا آپ نے ہی کرنا ہے، آپ نے اکیلے، آپ اپنی کابینہ تک پر بھی اعتبار نہیں کر سکیں گے۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ دراصل اپنے والد ہپی کے خوابوں کو اس نئے منظر نامے میں کیسے پورا کرتے ہیں، اور خود کو آئندہ کیلئے ایک حقیقی منتخب وزیر اعظم بننے کا اہل کیسے ثابت کرتے ہیں، کہ یہ وزارت عظمیٰ تو صرف ایک مشق ہے جس کا موقع آپ کے والد کی حسرتوں اور ادھورے خوابوں کے باعث قدرت نے آپ کو عطا کردیا ہے۔




