جماعت نہم کے طلبہ سلیبس بارے پریشان

قارئین محترم! نوجوان اور بالخصوص طلبہ کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ لیکن جب قوم کے معمار دس کلو وزن اٹھانے کے قابل ہوں او ان کے ناتواں کندھوں پر پچاس کلو بوجھ لاد دیا جائے تو یقینا قوم کے معمار قوم کا حلیہ بگاڑ دیں گے۔ یہاں آزاد کشمیر میں جو نیا سلیبس متعارف کرایا گیا ہے یقیننا وہ لائق تحسین اور جاذب نظر ہے۔لیکن چونکہ مواد اتنا زیادہ ڈالا گیا ہے کہ پچھلی جماعتوں سے کمزور آنے والے طلبہ اس مشکل طرز کے نصاب سے بجائے مستفید ہونے کے الٹا نقصان میں رہیں گے۔ آج جب دنیا بھر میں علم کے نور سے جگمگاہٹ ہو رہی ہے تو وہیں بد قسمتی سے ہماری ریاست آزاد جموں و کشمیر کے طلبہ پر بغیر کسی منصوبہ بندی کے اضافی نصاب لاد دیا گیا ہے۔چند ایک مثالوں سے واضح کرتا چلوں کہ پہلے جماعت نہم کی بائیالوجی میں کل 7اسباق تھے اب ان کی تعدا بڑھا کر 12کر دی گئی ہے۔ یہی صورت حال اسباق کے اندر ٹاپکس کی بھی ہے جو دوگنے ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کیمیا کے پرانے نصاب میں 8اسباق تھے جو کہ اب 20کر دئیے گئے ہیں۔ یہاں پر بھی ٹاپکس کی تعداد پہلے کی نسبت دگنی ہو چکی ہے۔
اس بات سے کوئی مفر نہیں کہ نیا نصاب انتہائی عمدہ اور مفصل ہے لیکن چونکہ آٹھویں سے جماعت نہم میں آنے والے طلبہ کی ذہنی صلاحیت محدود ہوتی ہے اس لئے چاہے لاکھ جتن کئے جائیں بچے کے ذہن میں ایک دم سے اتنا بوجھل نصاب منتقل کرنا خاصا مشکل کام ہے۔راقم نے بغور بائیولوجی اور کیمسٹری کا مطالعہ کیا اور اس بات کی خوشی ہوئی کہ 30سالہ فرسودہ چیزوں کو نکال کر نئی نئی چیزیں ڈالی گئی ہیں لیکن پیپرز بنانے کا طریقہ اور امتحان SLOبنیادوں پر ہو گا۔ایسا بچہ جو نرسری سے لے کر 8thتک محض رٹا لگا کر اچھے سے اچھے نمبرات بھی لے جائے تب بھی اس طرز کے امتحان میں وہ بمشکل پاسنگ مارکس ہی لے پائے گا۔بحرحال دلچسپ بات یہ ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کہ اور ہم 30سالہ پرانی تھیوریز سے نکل کر نئی سائنس سے انہی بکس کی وجہ سے آگاہ ہوئے ہیں۔
جس طرح پنجاب بورڈ اور فیڈرل بورڈ نے نصاب کو آسان بنانے کے لئے سمارٹ سلیبس متعارف کروایا ہے ریاست کے تعلیمی پالیسی ساز اداروں کو بھی فورا ایسا کرنا چاہئے۔ ورنہ اگر دسمبر 25ء کے بعد جا کر سمارٹ سلیبس دیاگیا یا پیپر پیٹرن کی آگاہی متعارف کروائی گئی تو بچوں کے شدید تعلیمی نقصان کا خدشہ ہے۔تعلیمی پالیسی ساز اداروں کو چاہئے کہ جلد از جلد جن جن اسباق کو نصاب سے فی الحال حذف کرنا مقصود ہے انہیں پریس ریلیز کے ذریعے سکولز اور کالجز تک اطلاع بہم پہنچائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو جو ٹاپکس نکالنے ہیں ان کے بارے میں بھی آگاہی دی جائے۔ اس کے علاوہ پہلے پیپرز میں 24مختصرسوال آتے تھے جن کی تین سیکشنز ہوتی تھی۔ 24میں سے 15سوالات کرنا ہوتے تھے اور مختصر سوالات کے کل نمبرات30ہوتے تھے۔ یوں 2نمبر کے مختصر جواب کے لئے طالب علم کو زیادہ سے زیادہ definationیا exampleکا سہارا لینا ہوتا تھا۔ لیکن اب کی بار مختصر سوالات کی تعداد 30سے کم کر کہ 20کر دی گئی ہے اور ہر سوال میں Orکا آپشن دیا گیا ہے۔ اب 15کے بجائے10مختصر سوالوں کے نمبرات 30 ہوں گے۔ یوں فی مختصر سوال 3نمبر کا ہو گا۔ اور جماعت نہم کے بچے کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ 3نمبر کے مختصر سوال کا جواب بآسانی دے پائے۔ معروضہ سوالوں کی تعداد اگرچہ وہی 12ہے لیکن اسباق زیادہ ہونے کے بجائے معروضی سوالات کا انتخابات کدھر سے کیا جائے گا اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ یہی صورتحال بڑے سوالات کی ہے۔ ان کی تعداد تین ہے جن میں سے دو کرنے ہوں گے اور ہر سوال کی دو اجزا AاورBہیں۔ ان کے نمبرات 18ہیں۔ لیکن ایک طرف 8 اسباق میں سے6اجزاء اور دوسری طرف 20اسباق میں سے 6 اجزاء کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔
قارئین! ایک مرتبہ پھر اس بات کی تائید کی جاتی ہے کہ موجودہ سلیبس ہر لحاظ سے پرانے سلیبس سے بدرجہا بہتر ہے لیکن جماعت نہم کے طلبہ کی ذہنی اپروچ اس قابل نہیں کہ وہ اس مشکل ترین نصاب کو مکمل کور کر سکیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر پیٹرن پیپرز اور سمارٹ سلیبس متعارف کروا کر طلبہ کی ذہنی و فکری خلش کو دور کیا جائے۔کیونکہ اس جدید نصاب نے جہاں ہمیں دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنے کا بہترین موقع دیا ہے وہیں پر طلبہ کے ذہنوں کو شدید الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ اداریے کے توسط سے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی تعلیمی پالیسی بنانے والے اداروں سے گزارش ہے کہ وہ جلد از جلد اس مسئلے کا کوئی بہتر حل تلاش کریں تا کہ طلبہ کی بے چینی میں کمی آئے اور وہ امتحانات میں اچھے نمبرات کے ساتھ ساتھ بہترین کنسپٹس بھی حاصل کر سکیں۔




