
قارئین کرام! جی چاہتا تھا کہ اپنے آبائی محکمہ تعلیم کی نسبت سے کچھ تحریر کروں۔ مگر سیانے لوگوں کا قول یاد آگیا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی”۔ اس لیے موجودہ گرما گرم موسم سیاست کا ہے۔ تازہ حالات کے تناظر میں کچھ گزارشات پیش کر دوں۔ میڈیا کا دور ہے۔ سب باخبر ہیں کہ ہماری آزاد کشمیر اسمبلی چند گھنٹوں میں چوتھا وزیراعظم لانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ یہ کرکٹ کے کھیل کی طرح نیا اور دلچسپ ریکارڈ ہوگا۔ سیاست کسی نے سیکھنی ہو تو آزاد کشمیر تشریف لائے۔کمال کے لوگ ہیں ہم ووٹ دے کر ایسا پکا نمائندہ اسمبلی میں بھیجتے ہیں جو ہر موسم میں نمائندہ ہی رہتا ہے۔ کیا مجال ہے کہ اس کی حیثیت میں کوئی فرق آئے۔ سواریاں بدلی جاتی ہیں سوار وہی ہیں۔ سچ ہے کہ زندگی امید اور نا امیدی کے درمیان ہوتی ہے۔عوام بھی بدلتے ہوئے حالات سے بڑی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ حالانکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی پرانے چہرے ہیں۔ تقریبا چار سال کے دورانیہ میں وزیراعظم کو آؤٹ کرنے کے علاوہ آئین یا ایکٹ کے تقاضوں کے مطابق اسمبلی کا ایک اجلاس تک نہیں کیا۔نہ ہی اصل ذمہ داری کے تحت عوام کے دکھ درد پر اسمبلی میں بات تک کی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔چارو ناچار محرومیوں کے باعث عوام نے بلا تفریق ایکشن کمیٹی کی کال پر تاریخی احتجاج کیا۔ ذمہ دار سیاستدان اب یہ محسوس کر رہے ہیں کہ عوام کا یہ رد عمل تھا جو سیاستدانوں کی اصل ذمہ داریوں کو پس پشت ڈالنے کے باعث تھا۔محض وزیراعظم بدلنے سے ہم اتنی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ اب کی بار ہماری سیاسی نمائندہ ٹیم خوب کھیلے گی۔ اللہ جانے کیا ہوگا لیکن اس خطہ کشمیر جنت نظیر کو مزید بدنامی سے بچانے کے لیے اب کی بار رویہ بدلنا ہوگا۔اگلے الیکشن کو محض چند ماہ باقی ہیں۔ ایسے میں نئی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا جو محسوس ہوتی ہیں۔
قارئین کرام! نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایکشن کمیٹی کے تسلیم شدہ بعض امور پر کامیاب کارروائی کرنا ہے۔ جس کی ضامن حکومت پاکستان خود ہے اور وسائل بھی مہیا کر رہی ہے۔ لیکن کچھ چیزیں سدا بہار نمائدوں کے لیے تکلیف دہ ہوں گی۔ جس میں اشرافیہ کی مراعات (جس میں وہ خود بھی آتے ہیں) کا خاتمہ یا کمی ہے۔ اسی طرح لیگل کمیٹی کی سفارشات آنے پر بعض حساس امور پر کاروائی کرنا بھی شامل ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر آمدہ الیکشن کے حوالے سے عوام کے ساتھ رویے میں تبدیلی بھی ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ ہمارے اکثر ممبران پچھلے وعدوں کی زد میں آئیں گے۔ اگر عوام کسی بھی قسم کے تعجب سے بالا ہو کر حساب لیں۔ مگر خوش قسمت ہیں۔ ہمارے نمائندے جو ہمارے حافظوں کو جانتے ہیں کہ ہم نئے الیکشن میں پرانی باتیں بھول جاتے ہیں۔ اور عوام کے اجتماعی مفادات کا قتل کرنے والوں کو پھر اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے نزدیک اہلیت،دیانت یا میرٹ کا معیار یہ ہوتا ہے کہ امیدوار کون ہے؟ کس جماعت کا ہے؟ کس علاقے کا ہے؟ اور کس برادری کا ہے؟ اس طرح ہم سب کچھ بھول کر بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں۔کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے اگر عوام کی اصول کے تحت سیاست میں حصہ ڈالیں تو نمائندوں کو جاگ کر رہنا پڑے۔اگر خدا خوفی ہو تو نمائندہ منتخب ہونے کے بعد پورے حلقے کا یکساں حقوق کا محافظ ہو۔کسی طرح کی جانبداری یا ازم نہ کر سکے۔ لیکن ہوتا اس کے الٹ ہے۔ ان حالات میں کچھ بہتری کی زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہیے پھر بھی کہتے ہیں کل جدید لذیذ پر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے۔
قارئین کرام! اس میں شک نہیں کہ ایکشن کمیٹی کے ایکشن نے عوام کو بیداری اور احساس دلایا ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟ اور میرٹ کے قاتل کون لوگ ہیں؟ مشکل یہ ہے کہ نہ نمائندہ چہرے بدل رہے ہیں نہ نظام بدل رہا ہے۔ بدل رہا ہے تو صرف انوار بدل رہا ہے۔ ایک بار پھر حضور کا فرمان جس میں منافق کی تین نشانیاں واضح طور پر بتا دی گئی ہیں۔ یاد دلاتا ہوں اس سے آمدہ الیکشن میں ووٹ لینے اور دینے والے بلکہ ووٹ دلانے والے احتیاط برتیں۔ جیت ہار اللہ کے اختیار میں ہے۔جھوٹ اور جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر ووٹ نہ مانگیں۔ ہر طرح کا عزم، تعصب لعنت ہے۔اس سے خود کو بچائیں۔میرٹ کے خلاف کوئی کام نہ کریں۔ تاکہ اصل زندگی جو اس زندگی کے بعد ہے وہ خراب نہ ہو۔ آخر میں توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ مظفرآباد دار الحکومت ایک عرصہ سے عدم توجہ کا شکار ہے۔ یہ سب کا ہے۔پرانے مظفرآبادی 20 فیصد بھی نہیں رہے۔ لیکن افسوس ہم سکونتی اور رہائشی اعتبار سے مظفرآبادی ہونے والے اکثریت سے اس کے مفاد کی فکر نہیں کرتے۔شہر اقتدار کو جیسا ہونا چاہیے ویسا نہیں ہے۔ نئی حکومت اللہ کرے اس کے زیر التوا غیر ضروری پابندیوں کی زد میں آتے ہوئے منصوبوں پر توجہ دے کر اس کا حق دلائے۔ میں سلام پیش کرتا ہوں محترم زاہد امین صاحب کو جو ایک بڑی سیاسی شخصیت محمد علی کنول صاحب کے جانشین ہیں۔وقتا فوقتا مسائل سے پردہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کی غیر جانبدار نشاندہی پر عمل دار آمد ہونا چاہیے۔ کوشش کی جائے کہ ہر سطح پر ذمہ دار اپنی ذمہ داری پوری کرے تاکہ عوام کو سڑکوں پر آنے کی نوبت نہ ائے۔ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ آئندہ الیکشن کو مثالی بنائیں۔ اہل لوگوں کو آگے بھیجیں تاکہ عوام کے دکھوں کا مداوا ہو سکے اور بعد از مرگ واویلا کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ عوام کا درست فیصلہ ہماری قومی غیرت اور وقار میں اضافہ کرے گا ورنہ وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی۔ امید ہے اب اسمبلی ممبران محض مفادات کے تحفظ کے لیے مثالی اتحاد نہیں کریں گے بلکہ اس خطہ اور اس کے عوام کا درد محسوس کرتے ہوئے جائز باتوں کو قبول کریں۔ خوا اس میں ان کی دلچسپی نہ بھی ہو۔ فکر نہ کریں ہم اپنے قابل احترام نمائدوں کو پھر اقتدار تک پہنچانے کے لیے کندھا دیں گے۔ رخصتی کے قریب وزیراعظم کا ایک کارنامہ یاد رہے گا کہ ہر چیز ہر پابندی لگا کر نظام حکومت کو جام کیے رکھا۔




