پاکستان گمراہ کن مہمات کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی سطح پر تیاری کرے۔سردار مسعود

اسلام آباد(بیورورپورٹ) پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ، چین اور اقوام متحدہ اور سابق صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو مصنوعی ذہانت کے دور میں غلط معلومات اور گمراہ کن مہمات کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی سطح پر ڈیجیٹل خواندگی اور مؤثر بیانیہ سازی کے لئے تیار رہنا ہوگا۔وہ اسلام آباد میں سینٹر فار لاء اینڈ سکیورٹی (CLAS) کے زیراہتمام ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے طویل سفارتی تجربے اور عالمی تناظر کی روشنی میں کہا کہ غلط معلومات کا استعمال کا طریقہ اتنا ہی پرانا جتنی انسانی تاریخ قدیم ہے، تاہم مصنوعی ذہانت نے اسے غیر معمولی رفتار، وسعت اور پیچیدگی بخش دی ہے۔سردار مسعود خان نے یاد دلایا کہ وہ 2005 میں انٹرنیٹ گورننس پر عالمی اجلاس کے چیئرمین رہ چکے ہیں، اور اس عرصے میں انہوں نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح غلط معلومات، جو ماضی میں جنگی ہتھیار سمجھی جاتی تھیں، اب جدید تنازعات میں ایک اسٹریٹجک ہتھیار بن چکی ہیں۔ انہوں نے پاک-ھارت جنگوں اور عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ بیانیہ سازی ہمیشہ قومی سلامتی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج مصنوعی ذہانت پر مبنی مواد، ڈیپ فیکس اور الگورتھم کی مدد سے کی جانے والی چالاکیاں عوامی تاثر کو میدانِ جنگ میں بدل چکی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ معلوماتی جنگ ایک مثبت پہلو بھی رکھتی ہے جو کسی قوم کے بیانیے اور ساکھ کو مضبوط بناتی ہے، لیکن گمراہ کن مہمات حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں اور معاشرتی انتشار کو جنم دیتی ہیں۔سردار مسعود خان نے خبردار کیا کہ اگر جھوٹی خبریں بروقت درست جواب نہ دیا جائے تو چند لمحوں میں لاکھوں لوگ انہیں حقیقت سمجھ قبول کر لیتے ہیں، اور یہ عمل قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو مؤثر حکمتِ عملی اپنانے کے لیے زمینی حقائق پر مبنی اقدامات، مربوط قومی بیانیہ اور سیاسی، معاشی و سماجی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی قوم اندرونی طور پر تقسیم ہو تو بیرونی پروپیگنڈے کے سامنے اس کا بیانیہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی تیز رفتار ڈیجیٹل ترقی اور نئی ٹیکنالوجیز کی تعلیم کے فروغ کو سراہتے ہوئے کہا کہ ملک کی 275 جامعات مصنوعی ذہانت، سائبر سکیورٹی، بلاک چین اور انٹرنیٹ آف تھنگز جیسے مضامین پڑھا رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے تنبیہ کی کہ ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ ساتھ معلوماتی دیانت داری کو یقینی بنانا بھی لازمی ہے۔سردار مسعود خان نے زور دیا کہ ریاستی ادارے، جیسے آئی ایس پی آر، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات، جدید ڈیجیٹل تقاضوں کے مطابق اپنی تیاری مکمل کریں، جبکہ شہریوں کو اس سطح کی ڈیجیٹل آگاہی حاصل ہونی چاہیے کہ وہ جھوٹے بیانیوں کو پہچان کر رد کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل طور پر باشعور آبادی کسی بھی بحران میں ایک اسٹریٹجک اثاثہ ثابت ہوتی ہے، کیونکہ وہ سچ کو آگے بڑھاتی ہے اور قومی ساکھ کا دفاع کرتی ہے۔انہوں نے حالیہ بھارتی پروپیگنڈا مہمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہر موقع پر ذمہ دارانہ اور حقیقت پر مبنی مؤقف پیش کیا، جبکہ بھارت کی طرف سے بڑھا چڑھا کر چلائی گئی مہمات خود اس کے اپنے میڈیا اور عوام کے سامنے بے نقاب ہوئیں۔سردار مسعود خان نے تحقیقاتی اداروں اور تھنک ٹینکس پر زور دیا کہ وہ غلط معلومات کے خلاف قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک تیار کریں اور انفارمیشن وارفیئر کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون پر مبنی حکمتِ عملی تشکیل دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب عالمی سیاست میں بیانیہ نظم، اسٹریٹجک کمیونی کیشن اور ڈیجیٹل خواندگی کی اہمیت روایتی عسکری طاقت کے برابر ہو چکی ہے۔اختتامی کلمات میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر ڈیجیٹل استقامت میں سرمایہ کاری کے بغیر اپنی بقا کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ انہوں نے پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور میڈیا کو متنبہ کیا کہ آج کی دنیا میں جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ الفاظ، الگورتھمز اور تصورات سے لڑی جاتی ہیں۔ سردار مسعود خان نے قومی یکجہتی، آگاہی اور ذمہ داری کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا مستقبل ٹیکنالوجی نہیں بلکہ سچائی متعین کرے۔
				



