
ریاست جموں و کشمیر کی جدوجہد آزادی میں جہاں 13جولائی1931ء کے سرینگر کے 22فرزندان اسلام کی شہادت کاتاریخی دن جس کو ہر سال کشمیری یوم شہداء کشمیر کے طورپر اندرون وبیرون ملک منا کر اپنے ان عظیم کشمیر ی شہداء، غازیوں اور مجاہدوں کو ان کی عظیم اور لازوال قربانیوں پرخراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔وہاں نومبر1947ء کے جموں کے شہداء کے یادگار اورناقابل فراموش دن اور ہفتے کو بھی ہر سال شہدائے جموں کے دن کے طور پر ان شہداء کی یا د میں نہ صرف آزاد و مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں بلکہ بیرون ملک مقیم تارکین وطن بھی اس دن اور ہفتے کو منانے کے لیے خصوصی تقریبات کا انعقاد کر کے اپنے جموں کے شہداء کی بے مثال اور ناقابل فراموش تاریخی جانی و مالی قربانیوں پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے مشن کی تکمیل کرنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ یوم شہداء جموں اور ہفتہ شہداء جموں کی ان اہم ایام کی تفصیلات کے مطابق در اصل 6نومبر کا دن تحریک آزاد کشمیر کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے جب اڑھائی لاکھ سے زائد مسلمانوں کو کسی قسم کی مذمت اور مداخلت کے بغیر گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھنیک دیا گیا کہ اور ان کی لاشوں کو دفنانے والا بھی کوئی نہیں تھا اور نہ کفن دینے والا اورنہ جنازہ پڑھنے والا ان کی آئیں اور سیسکیاں، غموں اور چیخوں تلے دب گئیں۔ لاکھوں وجود زمین میں یوں ڈھیر ہوئے کہ کسی کا سر سلامت نہیں اور نہ کسی کا دھڑ کسی کا بازو نہیں اور کس کی ٹانگ جسم کا ہر انگ اور ہر انگ کا ہر عضو ظالموں وقاہروں اور چنگیزوں کے ظلمت و جبریت کا گہرا ثبوت پیش کرتا تھا۔
19جولائی1947 کو قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد مسلمانان کشمیر نے واضع طور پر اپنی سمت کا تعین کردیا تھا۔جس نے مہاراجہ ہری سنگھ کو بوکھلا دیا۔ چنانچہ اس نے ایک جانب پاکستا ن کے ساتھ معاہدہ قائمہ کیا تا کہ وقتی طور پر اشتعال انگیز ی سے روکا جا سکے اور دوسری جانب اس کوشش میں مصروف رہا کہ مسلمان سپاہیوں کو غیر مسلح کرتے ہوئے مسلم آبادی کو اس طرح تہہ تیغ کیا جائے کہ ان کی اکثریت اقلیت میں بدل دی جائے تا کہ مسلم اکثریتی ریاست کا سوال اٹھایا جائے تو معلوم پڑے کے یہ ریا ست ہندو اکثریت کی حامل ہو چکی ہے اکتوبر1947ء کے اختتام سے قبل ہی جموں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا۔ جموں کے علاقہ سانبہ میں 14ہزار مسلمانوں کو محاصر ہ میں لیتے ہوئے ہر قسم کی اشیاء کی رسد بند کر دی گئی۔22اکتوبر1947ء کو مہاراجہ کے اشیر باد سے نہتے محصورین کا قتل عام شروع کر یا ان محاصرین میں سے صر ف پندرہ افراد زخمی حالت میں سیالکوٹ پہچنے میں کامیاب ہو سکے اس طرح کوملاٹانگ میں بھی یہی عمل دہرایا گیا جہاں 8ہزار مسلمانوں کو فوج کی نگرانی میں پاکستان لے جانے کا وعدہ کیا گیا لیکن جونہی یہ سب لوگ سڑک تک پہنچے ان پر یلغار کر دی گئی اورسب گولیوں سے بھون ڈالے گے۔ا کھنور میں بھی کمال ہوشیاری سے پاکستان بھجوانے کے نام پر 15ہزار مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا گیا اور پھر سب کو شہید کر دیا گیا۔ میران صاحب کے علاقہ میں 25ہزار مسلمانوں کو پاکستان کی طرف پیدل کوچ کا حکم دیا گیا۔ جب سب لوگ کھلی جگہ پہنچے توان کے مال و اسباب اور مستورات کو چھین لینے کے بعد مردوں کو ایک قطار میں کھڑے کرکے گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ 5نومبر1947ء کو ہزاروں مسلمانوں کو بسوں پر سوار کروا کر پاکستان لے جانے کے بہا نے انہیں پریڈ گراؤنڈ میں اکھٹا کیاگیا اور ان کے قافلوں کا رُخ ماوا کے جنگلوں کی طرف موڑ دیا گیا جہاں ڈوگرہ اور مسلح ہندووں نے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا۔مسلسل کئی دنوں تک مسلمانوں کے قتل عام کا یہ سلسلہ جاری رہا۔جب ہزاروں مسلمانوں کو اسی مقام پر لا کر شہید کر دیا گیا۔ حملہ کرنے سے قبل نوجوان لڑکیوں کو اغواء کر لیا جاتا تھا۔ ان اغواء ہونے والی مسلم دوشیزؤں میں
ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس کی ہمشیرہ اور ایک مسلمان رکن غلام مصطفی کی اہلیہ اور ہمشیرہ بھی شامل تھیں۔ چنانچے مجموعی طور پر جموں کی پانچ لاکھ آبادی میں سے اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا جب کہ باقی ماندہ کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ان اندوہناک واقعات کی تصدیق ممتاز اخبار”سٹیٹس مین” کے ایڈیٹر آئن سٹیٹس اپنی کتاب Moon Homed میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1947ء کی خزاں تک پانچ لاکھ مسلمانوں کی یہ آبادی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی دو لاکھ کا تو نام و نشان مٹ چکا تھا جبکہ باقی لوگوں کو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اس طرح ممتاز برطانوی مصنف الیسٹر لیمپ نے بھی اپنی کتاب Crisis in Kashmir میں لکھا ہے کہ جموں میں پنجاب سے ہندووں اور سکھوں کے جتھے کے جتھے پڑھے جنہوں نے قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا جس سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کی آبادی دو لاکھ کی تعداد میں کم ہو گئی ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا اور باقی لوگوں کو جنوبی پنجاب میں دھکیل دیا گیا، مغربی اخبارات (جن میں 10اکتوبر1948ء کا لندن ٹائم بھی سرفہرست ہے)کی رپورٹ کے مطابق بھی ڈوگرہ فوج نے جموں کے علاقے میں مہاراجہ کی زیرنگرانی 2لاکھ 37ہزار مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔
مذکورہ بالا تاریخی حالات و واقعات کے مطابق اور مشاہدے سے بھی یہ حقیقت پورے طو ر پر عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر،اسلام اور پاکستان سے وابستگی اور اس کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے لیے ریاست کے مسلمانوں نے اپنے جان و مال کی کس قدر عظیم بے مثال اور ایسی ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں جن کی اقوام عالم کی تاریخ میں بہت ہی کم مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی یہ عظیم قربانیاں اور جدوجہد ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسی غیر معمولی اور قابل تقلید مثالیں جن کی تقلید کرتے ہوئے وہ اپنی ریاست کی مکمل آزادی اسلام کی سربلندی اور ملک و قوم کی بقاء و سلامتی اور ترقی کے لیے ایک قوم کی حیثیت سے نا قابل شکست قوت بن سکتے ہیں۔
حکومت آزاد کشمیر حکومت کے محکمہ سروسز،جموں و کشمیر لبریشن سیل اور دیگر محکموں و اداروں کے تعاون سے ہر سال کی طرح اس سال بھی 6نومبر2025ء کے تاریخ دن آزاد کشمیر اور پاکستان کے علاوہ بیرون ملک تارکین وطن کی طرف سے یوم شہدائے جموں کی اہم تقریبات کا انعقاد کر کے جموں کے عظیم شہداء کی عظیم اور بے مثال قربانیوں پر ان کو تما م مکاتب کی طرف سے خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام6نومبر کودن 10بجے خورشید نیشنل لائبریری جلال آباد مظفر آباد کے ہال میں ایک اہم تقریب منعقد ہو گی جس میں حکومت اپوزیشن کل جماعتی حریت کانفرنس، لبریشن سیل،محکمہ اطلاعات،تاجر ایسوسی ایشن، آزاد میڈیا سمیت تمام اداروں و تنظیموں اور مکاتب فکر کے راہنماء، عہدیداران، کارکنان اور آفیسران و اہلکاران شرکت کر کے شہدائے جموں کی عظیم قربانیوں پر انھیں خراج عقیدت پیش کریں گے اور شہداء جموں کی عظیم اسلامی اور قومی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے تاریخی عزم کا اعادہ کریں گے۔ یوم شہدائے کشمیر کی مناسبت سے ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں (آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر) کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری اس تاریخی دن کی اہم تقریبات کے انعقاد کے علاوہ اس تاریخی دن کی تاریخی اہمیت کو میڈیا میں اجاگر کرنے کے لیے مختلف پروگراموں کے علاوہ اہم خبروں، مضامین اور تجزیوں و ثبوتوں اور پیغامات سمیت دیگر اہم مواد کی اشاعت کے لیے بھی حکومتی و سرکاری نیم سرکاری اور دیگر اداروں اور تنظیموں کی طرف سے اہم انتظامات اور اقدامات کو تیزی سے حتمی شکل دی جا رہی ہے۔




