کالمز

یہ بھی انسانوں کی بستی ہے

1988 سے 2025 — 37 سال، تین دہائیاں اور تین نسلوں کا وقت گزر گیا، مگر مقبوضہ جموں و کشمیر کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ بھارت نے اس پورے عرصے میں ظلم و بربریت کی وہ داستان لکھی جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ ایک لاکھ کشمیری اپنے حقِ آزادی مانگنے کی پاداش میں شہید کیے گئے۔ ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے، نوجوان پیلٹ گنز سے بینائی سے محروم ہوئے، اور گمنام قبریں آج بھی اُن مظلوموں کی خاموش گواہی دے رہی ہیں جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے۔
ظلم کی شدت اور دنیا کی خاموشی نے اس درد کو اور گہرا کر دیا۔ انہی مظالم سے تنگ آ کر تقریباً نو ہزار خاندان ہجرت پر مجبور ہوا اور آزادکشمیر آئے۔ مگر یہاں آ کر بھی ان کی مشکلات ختم نہ ہوئیں۔ مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے اور یہاں ان مہاجرین کیلئے رہائش کے مسائل بھی شدت اختیار کرنے لگے ہیں۔
پاک بھارت جنگ بندی معاہدے یعنی 2003 کے بعد ان کے حالات میں بہتری کی بجائے مزید زوال آیا۔05 اگست 2019 کے بعد مہاجرین کی بے چینی میں اضافہ ہوا غیریقینی صورتحال پیدا ہونے لگی۔ مہاجرین کے رہائشی مسائل بھی بڑھنے لگے تو۔ حکومت پاکستان تک جب مہاجرین کے مسائل پہنچے تو انہوں نے 2022 میں ان مہاجرین کی آبادکاری کیلئے ابتدائی 750 گھروں کیلئے فنڈز حکومت آزادکشمیر کو جون 2022 میں فراہم کیئے۔مگر آزادکشمیر حکومت آج تک پچاس گھر بھی مکمل نہ کرا سکی۔ یہی کام ایک غیرسرکاری تنظیم“جیکسا”نے ٹھوٹھہ میں تیزی سے کر دکھایا — ڈسپنسری بنائی اور تیس گھر مہاجرین کے حوالے کیے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کیوں نہیں کر سکی؟ مہاجرین کی مختلف بستیوں میں رہنے والے لوگوں کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ خیمے اور عارضی جھونپڑیاں اب پکے گھروں کی شکل اختیار کر چکی ہیں مگر وسائل نہ ہونے کے باعث یہ بستیاں آج بھی محرومی کی علامت ہیں۔ نہ صاف پانی، نہ مناسب سیوریج، نہ تعلیم، نہ صحت۔ زندگی کی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ گھروں کے ساتھ گھر جڑے ہوئے ہیں، آبادی بڑھ رہی ہے رہائشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں جو حکمرانوں کیلئے سوالیہ نشان ہیں، آزادکشمیر کے کئی بااثر لوگوں نے سرکاری زمینیں الاٹ کروا لیں مگر مہاجرین کیلئے انہیں اراضی میسر نہیں آرہی ہے جو حکومت کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا سب کچھ قربان کر کے یہاں آئے، مگر آج بھی ان کی زندگیاں اجنبیوں جیسی ہیں۔ ان کی تکلیف پر نہ حکومت کو احساس ہے نہ معاشرے کو درد۔ مانک پیاں کیمپ میں دریائے جہلم پر پل کا منصوبہ سابق وزیر اعظم تنویر الیاس نے شروع کیا تھا۔ ایک کروڑ سے زائد روپے خرچ ہوئے مگر منصوبہ آج بھی ادھورا پڑا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کسی مقامی علاقے میں ہوتا تو کب کا مکمل ہو چکا ہوتا۔ افسوس کہ مہاجرین کے مسائل پر ہمیشہ دکھاوے کی باتیں کی گئیں، عملی اقدامات نہیں ہوئے۔ ملازمتوں کا کوٹہ ختم، گزارہ الاؤنس جوں کا توں، اور تعلیم و صحت کے منصوبے فائلوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
مہاجرین کے سینکڑوں خاندان آج بھی کرایے کے مکانوں میں رہائش رکھے ہوئے ہیں، ان کے پاس کئی کئی ماہ تک کرایہ دینے کی سکت نہیں ہوتی، انتہائی تکلیف میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت کو اس پر بھی سنجیدہ کوششیں کرنی ہوگی۔انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے چونکہ جب سرینگر مظفرآباد بس سروس شروع ہوئی ان مہاجرین کو مقبوضہ جموں وکشمیر کیلئے پرمٹ تو نہ مل سکا مگر ان کے عزیز و اقارب ان کی حالات زار ضرور یہاں دیکھ کر گئے ہیں۔ مہاجرین کے حوالے سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی لوگ بے خبر نہیں ہیں۔ بھارت چونکہ کشمیریوں اور پاکستان سب کا ہی دشمن ہے اس لیئے یہ لوگ خاموشی کو ہی ترجیح اول رکھتے ہیں۔ آزادکشمیر کے حکمرانوں کو کم از کم سوچنا چاہیے کہ یہ منقسم خاندان بھی اسی ریاست کے شہری ہیں۔ ان کے چہرے پر دکھ کا سایہ ہے مگر دل میں اب بھی پاکستان سے محبت کی روشنی موجود ہے۔ ان کا صبر، ان کی خاموشی اور ان کی امیدیں ہماری حکومتوں کے لیے آئینہ ہیں۔ ان مہاجرین پر توجہ دینا محض انسانیت کا تقاضا نہیں بلکہ ریاست کا اخلاقی فرض بھی ہے۔ اگر حکومت اب بھی غفلت کی نیند میں رہے تو کل یہی خاموش لوگ بول اٹھیں گے اور پھر شرمندگی کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ بہتر یہی ہے کہ وقت رہتے ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔ یہ بھی انسانوں کی بستی ہے، ان کے آنسو بھی قیمتی ہیں، ان کے خواب بھی حق رکھتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں روشنی لانا ہم سب کا فرض ہے۔ جو قوم اپنے مظلوموں کو بھول جاتی ہے، تاریخ اُسے کبھی معاف نہیں کرتی۔

Related Articles

Back to top button