کالمزمظفرآباد

الحضرت پیر طریقت رہبر شریعت غوث زمان قطب دوراں حافظ علامہ مولانا محمد حسین شاہ کا دو روزہ عرس

تحریر: سید ثقلین حیدر بن تصدق حسین شاہ

مرد نگاہ کرے جس ویلے مشکل رہ نہ کائی
ہر مشکل دی کنجی یار و ہتھ مرداں دے آئی
عبد الجبار حسین شاہ‘ عبد الغفار حسین دو روزہ 70 واں سالانہ عرس مبارک مورخہ 15،16 نومبر دربار عالیہ میراہ بلگراں تحصیل و ضلع مظفر آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔جس میں پاکستان و آزاد کشمیر کے جید علمائے کرام و نعت خوان کے علاوہ دربار سے منسلک مریدین شرکت کریں گے۔ حضرت علامہ مولانا پیر سید محمد حسین شاہ بخاری 1882 میں پیدا ہوئے۔ سید قبیلہ کی شاخ بخاری سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آباؤ اجداد افغان کے صوبہ ثمر قند بخارا سے دین اسلام کی اشاعت و ترویج کے لیئے یہاں تشریف لائے۔۔ اُس وقت اس علاقہ میں ہندو، سکھ اور دیگر کافر قو میں آباد تھیں۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی سے حاصل کی۔ حضرت پیر سید سمندر شاہ بادشاہ اس وقت کے روحانی پیشوا تھے۔ بعد ازاں اپنے ایک ہم عصر دوست جن کا مدرسہ پکھلی ہزارہ میں تھا، وہاں تعلیم و تدریس کے لیے داخل کروادیا۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر استاد محترم کی خدمت میں حاضر رہ کر سلوک کی منازل طے تھے اور ہر ایک کے لیئے نرم گوشہ رکھتے تھے البتہ اگر کوئی اسلام کے خلاف غیر کیں۔ آپ انتہائی علیم طبیعت کے مالک تھے اورسادہ زندگی گزارتے تھیالبتہ اگر کوئی غیر شرعی بات کرتا تو سینہ تان کر اُس کے خلاف اقدامات کر ا، بیباکی، صاف گوئی، امانت داری، دیانت داری کے چرچے پورے علاقہ میں علاقہ میں نماز کی ادائیگی نہ کرنے والے پر بہت سختی کی جاتی تھی جس مشہور تھے۔ اس وقت کے حکمران ہندو سامراج بھی فتوی کے لیے ان کے پاس آتے اور ان کے مشوروں پر عمل کرتے۔ زہد و عبادت اور عبادت کا یہ عالم تھا کہ حضرت صاحب سارے سال کے روزے رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیئے وقف کر رکھی تھی۔ سینکڑوں لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر آپ کی وجہ سے پورا علاقہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتا تھا۔ آپ کا یہ وت و تبلیغ ان کے آباؤ اجداد سے لیکر آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ (کرامات) ایک وفعہ کا ذکر ہے کہ تین آدمی پیدل جارہے تھے۔ اس وقت بنیادی سہولیات نہیں تھیں۔ جب بھی کوئی سفر کے لیئے لکھتا تو اپنے کھانے نے کہا پینے کا سامان آثاء غیر و ساتھ رکھ لیتا، جہاں بھو کہ رکھا لیتا۔ وہ تین آدمی بھی پیدل سفر کر ئے ان کے آستانہ کے کچھ فاصلے پر پہنچے تو ان کو شدید بھوک لگی۔ ایک نے مشورہ دیا یہیں تیسرے نے کہا کہ پیر چھوٹی چھوٹی روٹیاں دیتے ہیں ان سے بھوک نہیں ملتی۔ بالا نے کہا کہ ناشتہ ہو جائے گا پیروں کے آستانے پر چلتے ہیں۔ جب وہ تینوں آدمی ان کے آستانے پر پہنچے تو آپ نے خود ان کو کھانا کھلایا۔ جس شخص نے کہا تھا کہ پیر چھوٹی چھوٹی روٹیاں دیتے ہیں اس کے سامنے مزید کھانا رکھ کر فرمایا کہ تو فلاں جگہ پر یہ کہ رہا تھا۔ یہاں پر لنگر کی کوئی کمی نہیں۔ اللہ تعالی کا دیا جو اسب کچھ وافر مقدر میں موجود ہے۔۔ قبرستان سے گزرتے وقت کلام کرتے، مردہ جواب دیتا۔ اس واقعے سے حضرت کی عند اللہ مقبول ہونے اور کرامت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا معمول تھا کہ ہر سال پورا رمضان شریف میں اعتکاف فرماتے۔ آپ کی اولاد میں پیر حضرت پیر عبد الجبار المعروف متو پیر مرحوم حضرت پیر غفار حسین شاہ (مرحوم) جو کہ بلند پایہ کے ولی اللہ گزرے ہیں۔ اس وقت بھی آپ کی اولاد سے پیر تصدیق مقدر حسین شاہ اور پیر فراقت حسین شاہ اپنے آباؤ اجداد کے مشن کی تکمیل اور دین اسلام کی ترویج کے لیئے ہر خاص و عام کی بلا مت میں پیش پیش ہیں۔ الحضرت پیر سید حافظ علامہ مولانا محمد حسین شاہ کا وصال 1953ء میں ہوا۔ ہر سال اسی دن بڑا دوروزہ عرس مبارک منعقد کیا جاتا ہے۔ اس دربار پر کوئی غیر شرعی کام ڈھول باجے وغیرہ نہیں ہوتے۔ واعظ کرام، نعت خوان، قرآن و حدیث کے مطابق خطاب فرماتے ہیں اور نعت خوان حضرات ہدیہ نعت شریف پیش کرتے ہیں۔ یہ با شرع سلسلہ قلندری سے ہیں۔ اُن کا فیض جاری و ساری ہے۔ مریدین روحانی طمانیت، فیوض و برکات حاصلکر نے یہاں آتے ہیں جن کے لیئے وسیع پیمانے پر لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس اک محفل میں شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔ (آمین)

Related Articles

Back to top button