کالمز

یہ دہشتگردی ہے جہادنہیں!

ہندوستانی پراکسی بننے والے کسی بھی گروہ، خواہ وہ طالبان کے نام سے پہچانے جائیں یا کوئی اور لیبل لگاکردہشتگردی میں ملوث ہوں،اُن کے پاس فتویٰ دینے، جہاد کا اعلان کرنے یا مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا کوئی شرعی اختیار باقی نہیں رہتا۔اسلامی تاریخ، فقہی اصول اور قرآن و سنت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں کہ کوئی بھی گروہ، تنظیم یا فرد جب مسلمانوں کے خون کو غیر مسلم قوتوں کے ایجنڈے کے لیے استعمال کرے، تو وہ خود بخود شرعی جواز سے محروم ہو جاتا ہے۔ دین اسلام میں سب سے بڑی حرمت،مسلمان کے خون، کی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اسے،خانہ کعبہ سے بھی زیادہ مقدس، قرار دیا ہے۔آج پاکستان میں جن دہشت گرد گروہوں نے باہر بیٹھے تخریب کاروں کا ایجنڈا اٹھا رکھا ہے، وہ نہ صرف ریاستِ پاکستان کے دشمن ہیں بلکہ اسلامی اصولوں کے بھی منافی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ کسی غیر مذہب طاقت کی پراکسی بن کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کودہشتگردی کا نشانہ بنانا، عبادت گاہوں، اسکولوں، مساجد، بازاروں اور فورسز پر حملے کرنا کوئی،جہاد، نہیں بلکہ اسلام کے بنیادی احکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اسلام میں جہاد کا اختیار صرف منظم ریاست کے پاس ہے، نہ کہ کسی گروہ، قبیلے یا مسلح تنظیم کے پاس۔ جب ریاست کسی اقدام کو ناجائز اور فتنہ قرار دے چکی ہو تو اس کے بعد کسی گروہ کے لیے ہتھیار اٹھانے کا کوئی مذہبی یا اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا۔جو گروہ بھارت سمیت دیگر دشمن قوتوں کے اشاروں پر دہشتگردانہ حملے کرتے ہیں، وہ اپنی اسلامی شناخت کھو دیتے ہیں۔ ایسے گروہ دین اسلام کے مطابق،فتویٰ، دینے کے حقدار کیسے ہو سکتے ہیں؟کیونکہ فتویٰ ہمیشہ امن، عدل، جان کے تحفظ اور معاشرتی بھلائی کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ کسی غیرمذہب کی پراکسی بن کردہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے۔ جب کسی گروہ کے ہاتھ سے مسلمانوں کا خون بہتا ہو اور اس کے قدم دشمنانِ اسلام کی راہ میں بچھے ہوں تو وہ فتنہ کے زمرے میں آتا ہے، اصلاح کے نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب عوام، ریاست اور مذہبی طبقات ایسے گروہوں کو،خوارج، قرار دیتے ہیں۔ وہی فکر جو مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا جواز گھڑتی تھی۔ آج بھی یہی ذہنیت بیرونی ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے پر ریاست پاکستان پوری قوت اوراتحادکے ساتھ اس فتنہ کے خلاف کھڑی ہے اورہم آخری دہشتگردکے خاتمے تک لڑنے کیلئے تیارہیں۔
خیبر پختونخوا کے حساس اور مشکل پہاڑی خطے میں 16 اور 17 نومبر کو ہونے والی دو بڑی کارروائیوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت ثابت کر دی کہ پاکستان کی ریاست اور اس کے عسکری ادارے دہشت گردی کے خلاف کسی نرمی یا مصلحت کے قائل نہیں۔ ان کارروائیوں میں،انڈین پراکسی فتنہ خوارج سے تعلق رکھنے والے 23 دہشت گردوں کا خاتمہ صرف آپریشنل کامیابی نہیں بلکہ ایک واضح اسٹریٹجک پیغام ہے کہ پاکستان کے دشمن اب چاہے جغرافیہ بدل کر آئیں، نام بدل کر، یا کسی بیرونی ایجنسی کے سہولت کار بن کرریاست ان کا تعاقب کرے گی اور انہیں انجام تک پہنچائے گی۔آئی ایس پی آر کے مطابق پہلا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن باجوڑ میں کیا گیا۔ باجوڑ کا علاقہ کئی دہائیوں سے مختلف شدت پسند گروہوں کی نقل و حرکت کا مرکز رہا ہے، جدید انٹیلی جنس اور بہتر کوآرڈینیشن کی بدولت اب یہاں دشمن کے لیے ٹھکانہ بنانا، باقاعدہ نیٹ ورک چلانا یا کارروائیاں پلان کرنا پہلے جیسا آسان نہیں رہا۔ فوجی جوانوں نے خوارج کے زیرِ قبضہ علاقے کا موثر گھیراوکیا اور گھنٹوں جاری رہنے والی کارروائی کے نتیجے میں خوارج کے سرغنہ سمیت گیارہ دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا۔ یہ کامیابی محض طاقت یا عددی برتری سے نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی، درست خفیہ معلومات اور زمینی صورتحال کے گہرے ادراک سے ممکن ہوئی۔اگلے ہی روز دوسرا آپریشن بنوں میں کیا گیا، جہاں مزید 12 خوارج مارے گئے۔دہشتگردی کے خلاف کامیاب کارروائیوں کا سلسلہ اس بات کی علامت ہے کہ دہشت گردی کے باقی ماندہ نیٹ ورکس نہ صرف کمزورہورہے ہیں بلکہ ریاست ان کے مکمل خاتمے کے لیے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔فیلڈ مارشل نے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے والوں کو وہی جواب دیا جائے گا جو مئی میں دیا گیا تھا یعنی بروقت، شدید، اور فیصلہ کن۔یہ بیانیہ پاکستان کے سکیورٹی فریم ورک میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ طویل عرصے تک ریاست دہشت گردی کا شکار بنی رہی پر اب ریاست پاکستان دہشتگردوں اوراُن کے سہولت کاروں کے تعاقب میں ہے۔یہ حقیت ہے کہ دشمن کا ماڈل بھی بدل چکا ہے،وہ بکھرے ہوئے گروہ ہیں، بیرونی انٹیلی جنس کے ساتھ منسلک، اور ڈیجیٹل پروپیگنڈا کی شکل میں حملے بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں صرف عسکری طاقت کافی نہیں ہوتی، انٹیلی جنس کا مضبوط نظام، اندرونی صفوں کی صفائی، نئی ٹیکنالوجی کا استعمال، اور عوامی اعتمادمیں اضافہ ضروری ہوتا ہے۔ فیلڈ مارشل اس تبدیلی کی قیادت کر رہے ہیں اور قومی سلامتی کے تمام ستونوں کو مربوط حکمت عملی کے تحت یکجا کر رہے ہیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان نے دہشتگرد گروہوں کو،خوارج، قرار دیتے ہوئے انہیں محض ریاستی دشمن نہیں بلکہ فکری و نظریاتی فتنہ قرار دیا ہے۔ دراصل یہ جنگ دو محاذوں پر لڑی جا رہی ہے۔ایک وہ جو بندوق اور دھماکے سے ہوتا ہے، اور دوسرا وہ جو ذہنوں اور بیانیے میں ہوتا ہے۔ خوارج کا مقصد خوف، انتشار اور ریاستی اداروں پر عدم اعتماد پیدا کرنا ہے۔ اس کا توڑ صرف آپریشنز سے نہیں بلکہ قوم کو متحد، باہمت اور اسٹیٹ بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے سے ہوتا ہے۔ یہاں فیلڈ مارشل کی قیادت خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ دہشت گردی کے خلاف بیانیے کو مذہبی، قومی اور آئینی دلائل کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر استوار کر رہے ہیں۔باجوڑ اور بنوں کی کارروائیاں نہ صرف دہشت گردی کے ڈھانچے کو کمزور کرتی ہیں بلکہ دشمن کو ایک سخت پیغام بھی دیتی ہیں،پاکستان کی سرزمین پر کوئی بیرونی آلہ کار محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چاہے وہ پڑوسی ممالک کے پراکسی ہوں یا عالمی نیٹ ورکس کا حصہ، ریاست انہیں ڈھونڈ نکالے گی اور منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ یہ کارروائیاں ان لوگوں کے لیے بھی سبق ہیں جو پاکستان کو غیرمستحکم دیکھنے کے خواہاں ہیں کہ یہ ملک نہ کمزور ہے، نہ منتشر، نہ بے بس۔اوراب یہ بات مزیدکھل کرثابت ہوچکی ہے کہ کسی غیرمذہب اورمسلم دشمن قوت کے ایجنڈے کیلئے استعمال ہونے والے دہشتگردیااُن کی پشت پناہی کرنے والے کسی فردیاگروہ کے پاس جہادکافتویٰ دینے حق نہیں۔دہشتگردی میں استعمال ہونے والے مسلمانوں کوسمجھناچاہیے کہ،یہ دہشتگردی ہے جہادنہیں
٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button