رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس — نظریہ الحاقِ پاکستان کا درخشاں باب
تحریر: سمعیہ ساجدمرکزی چیئرپرسن مسلم کانفرنس خواتین ونگ

رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس تحریکِ آزادی کشمیر اور نظریہ الحاقِ پاکستان کی تاریخ کا وہ روشن باب ہیں جن کی جدوجہد، اصول پسندی اور حریتِ فکر آج بھی کشمیری قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ وہ محض ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ کشمیری عوام کے سیاسی شعور کے معمار، تحریکِ آزادی کے فکری قائد اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قابلِ اعتماد ساتھی تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی اور ہر دور میں اپنی قوم کے حق میں ڈٹ کر کھڑے رہے، اسی لیے تاریخ نے انہیں“رئیسُ الاحرار”کے خطاب سے نوازا۔
چوہدری غلام عباس 1904ء میں جموں میں ایک معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی، جس نے ان کی سیاسی بصیرت کو مضبوط اور نظریاتی سوچ کو واضح بنیاد فراہم کی۔ نوجوانی ہی میں انہوں نے کشمیری مسلمانوں کے اجتماعی حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور جلد ہی ایک مؤثر سیاسی آواز بن کر سامنے آئے۔
1932ء آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی، جو کشمیری مسلمانوں کی پہلی منظم سیاسی جماعت بنی۔ آپ مسلم کانفرنس کے بانی سیکرٹری جنرل تھے،اس جماعت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور کشمیری عوام کو ایک منظم پلیٹ فارم فراہم کیا۔ مسلم کانفرنس کی نظریاتی سمت کے تعین میں چوہدری غلام عباس کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔مہاراجہ کی جابرانہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں چوہدری غلام عباس نے بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر وہ اپنے مؤقف سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ انہوں نے عوام میں سیاسی شعور اجاگر کیا اور کشمیر کے کونے کونے میں حقوق کی تحریک کو منظم کیا، جس کے باعث وہ کشمیری عوام کے حقیقی قائد کے طور پر ابھرے۔
19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کی جانب سے منظور کی جانے والی تاریخی قراردادِ الحاقِ پاکستان دراصل چوہدری غلام عباس کی برسوں پر محیط سیاسی جدوجہد اور نظریاتی استقامت کا عملی اظہار تھی۔ اسی قرارداد نے کشمیری قوم کو پاکستان کے ساتھ اپنے مستقبل کے تعین کا واضح راستہ دکھایا اور تحریکِ آزادی کو ایک مضبوط نظریاتی بنیاد فراہم کی۔
جموں کے 1947ء کے سانحے میں چوہدری غلام عباس اور ان کے خاندان نے ناقابلِ بیان قربانیاں دیں۔ ان کی صاحبزادی کو بھارتی فوج نے اغوا کیا اور خاندان کو شدید ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان ذاتی صدمات کے باوجود انہوں نے حوصلہ نہ ہارا اور تحریکِ آزادی سے وابستگی کو کمزور نہ ہونے دیا۔ یہ ان کے غیر متزلزل عزم کی زندہ مثال ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد چوہدری غلام عباس پاکستان منتقل ہوئے اور یہاں سے تحریکِ آزادی کشمیر کی سیاسی، سفارتی اور نظریاتی قیادت کرتے رہے۔ انہوں نے کبھی اقتدار یا ذاتی مفاد کو ترجیح نہیں دی بلکہ ہر فورم پر کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت اور نظریہ الحاقِ پاکستان کی بھرپور وکالت کی۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کو چوہدری غلام عباس پر غیر معمولی اعتماد تھا۔ جن شخصیات کو قائداعظمؒ نے تحریکِ آزادی اور ملت کی قیادت کے لیے منتخب کیا، ان میں نواب بہادر یار جنگ اور چوہدری غلام عباس شامل تھے، جو ان کی دیانت، بصیرت اور اصولی سیاست کا واضح ثبوت ہے۔
جس طرح قائداعظمؒ کے نظریاتی تسلسل میں رئیسُ الاحرار چوہدری غلام عباس نمایاں نظر آتے ہیں، اسی طرح ان کے بعد مجاہدِ اوّل سردار محمد عبدالقیوم خان نے اس مشن کو آگے بڑھایا۔ ان دونوں رہنماؤں نے تحریکِ آزادی کشمیر کو قیادت، سمت اور نظریہ فراہم کیا اور نظریہ? الحاقِ پاکستان کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
چوہدری غلام عباس 1967ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور انہیں فیض آباد، راولپنڈی میں سپردِ خاک کیا گیا، تاہم ان کی فکر، جدوجہد اور نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ مسلم کانفرنس آج بھی ان کے افکار پر قائم ہے اور تحریکِ آزادی کشمیر ان کے وژن سے توانائی حاصل کر رہی ہے۔
آج رئیسُ الاحرار چوہدری غلام عباس اور مجاہدِ اوّل سردار محمد عبدالقیوم خان کے مشن کو مسلم کانفرنس کے کارکنان صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان کی قیادت میں پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس برسی کے موقع پر کارکنان و عہدیداران نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے نظریے، تحریکِ آزادی کشمیر اور نظریہ? الحاقِ پاکستان کو ہر قیمت پر زندہ رکھیں گے۔۔



