یوم تا سیس اب کے برس۔۔ بانگِ جرس

24اکتوبر 1947 ہماری ریاست کے اس آزاد ٹکڑے کا یوم آز ادی ہے،جہاں ہم نے ایک حکومت،ایک سرکار بنا رکھی ہے،جس کی نسبت پوری ریاستِ جموں وکشمیر سے جوڑ نے کی رعایت لے کر ہم ابتدا ہی سے اس دن کو یوم تاسیس کے طورپر مناتے چلے آرہے ہیں،اور اس تاسیس یعنی بنیاد میں ہم آج تک ایک پتھر بھی نہیں لگا سکے، ہم نے بیس کیمپ کا نعرہ تو لگایالیکن اپنے آئین ایکٹ 1974یاآئینی روپ بہروپ میں عمارت کی بنیادیں بنانے کا ذکر تک بھی نہیں کیا،اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں نہیں کیا؟ تو اس کا جواب آپ یا میں آج اس ماحول،اس دور میں بیٹھ کر نہیں دے سکتے نہ ہی دینا چاہیے، اسلئے آئیں لوٹ کر واپس 1947میں چلتے ہیں،اور دیکھتے ہیں کہ ہم نے پورے جموں وکشمیر کی آزادی کی خواہش ہونے،اس کیلئے لڑنے کے باوجود اپنے اسس آزاد خطے کو بیس کیمپ کیوں نہیں بنا سکا، دراصل پہلے روز سے ہی جب اعلان آزادی ہوتا ہے، توہم رابطے اور پیغام رسانی کے فقداناور پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث مربوط رد عمل دینے کے بجائے ہر علاقے میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق رد عمل دینے لگے، اس کی وجہ سرینگر میں ہونے والی سوچ بچاریا19جولائی 1947کا الحاق پاکستان کا فیصلہ نہیں تھا،بلکہ 1946 کے آخر اور 1947میں مہاراجہ کا جاری کردہ وہ نادر شاہی حکم تھا جس کے تحت مہاراجہ نے پورے جموں وکشمیر سے ہر قسم کا ہتھیار جس میں دوسری جنگ عظیم کے وقت سے برطانوی فوجیوں کے لائے ہوئے ہتھیاروں سمیت توڑے دار بندوقیں، کلہاڑیاں،برچھے اور تلواریں حتیٰ کہ چھوٹے بڑے چُھریاں چُھرے،ٹوکے وغیرہ تک شامل تھے (جو خاص طور پر مسلمانوں نے بڑے جانور ذبح کرنے کے لئے چھپا کر رکھے ہوتے تھے)سب سرکاری مالخانوں میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی،(البتہ سکھوں نے اپنی کرپانیں وغیرہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر جمع کروانے سے انکار یا خاصے لیت و لعل سے کام لیا تھا) اس حکم پر مسلمانوں نے جو غالب اکثریت میں بھی تھے نے طوعاََ و کرہاََ سوائے کچھ باغیانہ مزاج لوگوں کے من و عن نہیں مگر پھر بھی خاصا عمل کیا،مہاراجہ کی پولیس نے خانہ تلاشیاں بھی لیں اور یوں جموں سے کشمیر تک مسلمان تقریباََ نہتے ہو گئے تھے،البتہ مسلمانوں نے کسی آنے والے خطرے کو محسوس ضرور کر لیا تھااور یوں ایک مبہم سی بیداری بھی ضرور پیدا ہو چکی تھی، سرینگر سے الحاق یا آزادی کے پیغام کے بجائے ابھی تک سواد اعظم مسلم کانفرنس کے نیشنل کانفرنس میں ڈھلنے اور پھر اختلافات پیدا ہو کر مسلمانوں ہی کی دو جماعتیں بن جانے کی خبریں سفر کرتی پھیل رہی تھیں،مستقبل کے لائحہ عمل سے ملت پوری طرح بے خبر اور گوں مگوں کی کیفیت میں تھی، تب پاکستان بننے کی خبریں پھیلنے لگیں، اطلاعات ”نیچرلی“ گڈ مڈ ہونے لگیں،ابھی کم تعلیم یافتہ اور ذرئع رسل و رسائل اور مربوط نظام پیغام رسانی سے محروم لوگ اچانک قیام پاکستان کی خبر پاتے ہیں، انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے، سرینگر میں اگر کوئی فیصلے یا منصوبہ بندی ہو بھی رہی تھی تو شہر سے باہر کی باقی ساری آبادیاں اس سے لاعلم اور بے خبر تھیں تقسیم برطانوی ہند کی خبریں جموں پہنچتی ہیں تو جموں کے علاقوں میں ہند وستان ٹوٹنے کے غم، غصے اور انتقام میں ہندو اکثریت مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام شروع کر دیتی ہے، جس کا نہتے مسلمان مقابلہ نہیں کر پاتے اور لوگ کسی دوسری یا وادی کی طرف بھاگنے کے بجائے پاکستان کی محبت اور لفظ اسلام کی کی کشش میں (چونکہ انہیں دو قومی نظریے کی بھنک پہلے سے مل چکی تھی) وہ پاکستان کی طرف بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، اور ہندو بھی پاکستان کو مسلمانوں کیلئے ایک گالی بنا کر انہیں پاکستان کی طرف دھکیلنا شروع کر دیتے ہیں، (اس کے راوی کوٹلی کی مرحوم شخصیت سردار محمد حسین تھکیال راجپوت(آف مہینڈر) اور نکیال سے راجہ ھدایت للہ دوئمال راجپوت (آف پراوہ) تھے، تحریک آزادی کے سرگرم رکن اور مہاراجہ کی پرجا سبھا کے 1934سے 1947تک کے مسلسل رکن سردار فتح محمد کریلوی نے بھی بارہا اس کی تصدیق کی ہے، جموں کے مختلف ہجرت کرنے والوں کی اولاد نے بھی والدین سے سن کر اسی صورت کی تصدیق کر رکھی ہے،قریب ہونے کی وجہ سے ہفتہ بھر میں یہ خبریں پونچھ کے علاقوں میں پہنچتی ہیں اور وہاں ہندو کے خلاف رد عمل میں سردار محمد عبدالقیوم خان اور23 اگست 1947طرز کے واقعات ریکارڈ پر آتے ہیں، وہی خبریں اور پونچھ میں چلنے والی گولیوں کی خبریں جب مظفرآباد پہنچتی ہیں،تو مظفرآباد میں ہل چل اور بے چینی ضرور پیدا ہوتی ہے،مگر کوئی بڑا رد عمل نہیں آتا تا وقتیکہ 21/22اکتوبر1947کو پشاور،ہزارہ اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں کے رضاکار آپہنچتے ہیں، گوجرہ کی مقامی سیاسی وسماجی شخصیت چوہدری عبدالعزیز کے مطابق مظفرآباد میں سکھوں اور ہندووں کا قتل عام22اکتوبر کے بعد شروع ہوتا ہے، 23اگست سے بعد کے عرصہ میں مظفرآباد میں ایک خوف و ہراس اور کشیدگی کی فضا ضرور تھی، دونوں اطراف غم وغصہ بھی تھا، مگر قتل عام کے کوئی بھی شواہد نہیں ملتے، البتہ مطابق بیان راجہ عبدالحمید خان (بعد میں وزیر حکومت)، وہ کچھ ساتھیوں سمیت خان عبدالحمید خان (بعد میں وزیر اعظم)کی مشاورت سے گلکت سکاؤٹس کو خبردار کرنے اور مہاراجہ سے بغاوت کی صلاح دینے گلکت ضرور پہنچتے ہیں، اسی طرح کی دیگر سرگرمیاں بھی ضرور جاریی تھیں مگر تیز رفتار رابطے نہ ہونے اور مہاراجہ کے دبدبے کے باعث ساری سرگرمیاں زیر زمین تھیں، جو رضاراروں کی آمد کے بعد قتل عام اور غیر مسلموں کو بھارت کی طرف دھکیلنے کی صورت میں سامنے آتی ہیں، غیر جانبدارتاریخ کے اوراق آج بھی اس صورت حال پر شاہد ہیں، 27اکتوبر 1947جب بھارت اپنی فوجیں سریبگر میں اتارتا ہے سے قبل وادی بھر سے ہجرت نہ ہونے کے برابر تھی البتہ ریاست بھر میں ایک غدر سا برپا ہونے کے باعث ہندو ضرور بھارت کی طرف بھاگنا شروع ہو چکے تھے، جموں میں تو غدر 14اگست 1947کے بعد سے جاری تھا،مگر ڈکوٹا جہازوں سے سرینگر میں بھارتی فوج کے اتارے جانے کے بعد وادی میں بھی ایک غدر مچا، مسلمانوں کا توبھا رتی فوج کچھ جوشیلے مقامی ہندووں کی مدد اور نشاندہی پر قتل عام کر رہی تھی اور رد عمل میں مسلمان بھی سرینگر اور باقی وادی میں رضاکاروں کے طرز پر ہندووں کو مارتے اور بھگاتے رہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ 24اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر کو علیحدہ مقامی سا علیحدہ تشخص صرف پاکستان حکومت کی رائے، ایمااورمدد کی وجہ سے حاصل ہوا، ورنہ جموں و کشمیر کی اکثریت تو لاعلمی میں 14اگست کی شب خود کو پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کے اندر آزاد ہوتا ہوا دیکھ رہی تھی، خود مختار حکومت کی بات سرینگر میں ضرور چل رہی تھی،اور لوگ 18جولائی کو مسلم کانفرنس کے اجتماع میں اس کی پذارائی کی تاریخی حقیقت بھی بیان کرتے ہیں۔مگر یہ ساری پیش رفت مارچ 1947سے جولائی تک صرف سرینگر میں ہو رہی تھی وہ بھی خاموشی سے اور خفیہ انداز میں، غدّر سے قبل کے کسی عوامی اجتماع میں اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی، اور نہ ہی 19جولائی کے بعد بھی شیخ عبداللہ جیسی دوسری بڑی قوت کی طرف سے 19جولائی سے 24 اکتوبر تک الحاق پاکستان کی مخالفت میں کوئی بیان ملتا ہے، یہ حقایق اُس وقت کی صورت حالات کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں، کہ اس وقت جموں و کشمیر کے لوگ کیا چاہتے تھے، ساری ہجرتیں اور ترک وطن تو صرف ظلم و جبر کی وجہ سے ہوا تھا، البتہ پاکستان ہر کشمیری کے دماغ میں موجود تھا اور دل میں اترتا چلا جا رہا تھا، یہ اقوام متحدہ اور یو این سی آئی پی اورعالمی قرار دادیں تو بہت بعد کی بات ہے، پہلی قرار داد تو 13اگست1948میں آتی ہے، یہ سب میرے قارئین کیلئے بس ”فروٹ فار تھاٹ“ تھا، آج تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ذرا غور کی جئے کہ ہم 24 اکتوبر کو سیدھے سیدھے اس چھوٹے سے آزاد خطے کی آزادی کا دن کیوں نہیں مناتے جیسے یکم نومبر کو گلگت والے مناتے ہیں اور اگر ہم نے اسے بیس کیمپ بنا کر ریاست کی مکمل آزادی کی پہلی اینٹ رکھی تھی تو پھر وہ بیس کیمپ کہاں چلا گیا، غرض کہ مدعا یہ ہے کہ ہمارے آئین، ہماری آزاد ریاست، ہماری حکومت اور ہمارے اقدامات کی طرح سب کچھ ہی عبوری ہے، مگر کیوں ہے جب ہم کچھ عبور ہی نہیں کرنا چاہتے، قارئین ہمارے مستقبل کی لڑائی پہلے ہمیں اپنے دماغوں کے اندر ہی لڑنا ہو گی تب جا کر کہیں ہم خود مطمعن اور خوشحال ہو کر پا ر والوں کے کسی کام آسکیں گے۔رب ہمیں سمجھ عطا فرمائے آمین۔




