
ہر انسان میں اللہ تعالی نے فطرتی طور پر یہ خواہش رکھی ہے کہ وہ شادی کے بعد صاحب اولاد ہو جائے۔ حتی کہ انبیاء اکرام اور اولیاء اکرام نے بھی یہ تمنائیں اور دعائیں مانگی۔ اور اولاد دینا یا نہ دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے دونوں میں اللہ پاک کی حکمت پوشیدہ ہے۔ اللّٰہ پاک کسی کو اولاد دے کر اور کسی کو اولاد نہ دے کر آزماتا ہے۔ اولاد ایک نعمت سے کم نہیں اس کی قدر ان سے پوچھیں جن کے گھر کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلا۔ بچے کی صورت میں کھلنے والا پھول سارے گھر اور گھر والوں کو معطر کر دیتا ہے۔ اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ بڑے بڑے گھر نوکر چاکر پیسے کی بہتات ہر قسم کی آسائشوں کے باوجود اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ اور اس کی کمی کسی چیز سے پوری نہیں ہوتی۔ بچے اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے ان کی بہترین تربیت ضروری ہے۔ یہی بچے کل بڑے ہو کر والدین تاجر استاد ڈاکٹر سیاستدان سائنسدان بنیں گے۔ اور معاشرے کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے۔ اگر یہ اپنی ذمہ داریاں شریعت کے مطابق بطریق احسن ادا کریں گے تو یہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ اج کل کے اس پرفتن دور میں بچوں کی تربیت کی ضرورت اور اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جب آج جدت پسندی کی رنگینیاں اور فریب کاریاں مسلم معاشرے کو موبائل فون ٹی وی ڈش انٹینا کیبل انٹرنیٹ کی صورت میں گرے ہوئے ہیں۔ تفریح اور معلومات عامہ میں اضافے کے نام پر آلات بے حیائی کو جس طرح فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ یہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی اور پوشیدہ نہیں۔ یقینا وہی اولاد دنیا و آخرت میں نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک و صالح ہو۔ اور یہ بات حقیقت میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد کو نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اولاد کو نیک یا بد بنانے میں والدین کا بڑا کردار ہے۔ اس دور میں نیکیاں کرنا بے حد دشوار اور ارتکاب گناہ بہت اسان ہو چکا ہے۔ مسجدوں کی ویرانی سینما گھروں ڈراموں تھیٹروں کی رونقیں دین سے دور رکھنے والوں کو خون کے انسو رلاتی ہیں۔ اج کل کثرت سے بچے دیر تک راتوں کو گھروں سے باہر رہنا موبائل پر ساری ساری رات وقت گزارنے نماز روزے اور قران مجید سے دوری والدین کو خاطر میں نہ لانا شباب اور شراب کی محفل میں وقت گزارتے نوجوان بے راہ روی کے شکار معاشرے میں بہت سی برائیوں کا موجب بن رہے ہیں۔ والدین کا مقصد تکمیل ضرورت اور اصول سہولیات کی جدو جہد نے فکر اخرت سے یکسر غافل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دنیاوی شان و شوکت اور ظاہری آن بان مسلمانوں کے دلوں کو گرویدہ بنا چکی ہے۔ مگر افسوس اپنی قبر کو گلزار جنت کی تمنا دلوں میں گھر نہیں کرتی۔ ان نامساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کا اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہونا بھی ہے۔ کیونکہ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے۔ تو جب فرد کی تربیت صحیح طور پر صحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو اس کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں عالی سے کسی طرح بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جب والدین کا مقصد اصول حیات اور حصول دولت ہو آرام طلبی وقت گزاری اور عیش و عشرت بن جائے تو اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے۔ اور جب تربیت اولاد سے بے اعتنائی کے اثرات سامنے آتے ہیں۔ تو یہی والدین ہر کس و ناکس کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ارتکاب گناہ کی مادر پدر آزادی اور بگڑا ہوا گھریلو ماحول یہ سب بچے کی تربیت میں شیطانیت اور نفسانیت کو اتنا قد آور کر دیتا ہے کہ اس سے پاکیزہ کردار کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ گندے نالے میں ڈبکی لگانے کے بعد جسم کی طہارت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں اولاد کی تربیت دونوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے۔ ترجمہ کنز الایمان اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ یہ سخت کڑے وقت پر فرشتے مقرر ہیں جو اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم دیا گیا وہی کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم سب نگران ہو تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ سے رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہر شخص اپنے اہل و عیال کا نگران ہے۔ اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے گھر اور اولاد کی نگران ہے۔ اس سے بارے میں پوچھا جائے گا۔ صحیح بخاری، والدین کی ایک تعداد ہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ بچہ کے ابھی چھوٹا ہے۔ جو چاہے کرے تھوڑا بڑا ہو جائے تو پھر اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر توجہ دیں کیونکہ زندگی کے ابتدائی سال ہی بقیہ زندگی کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اولاد جو انکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ جس پر انسان فخر کرتا ہے۔ جس کی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ بہتا ہے۔ اس کی اگر اچھی تربیت نہ کی جائے تو بعض اوقات رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ دل کے سکون کے بجائے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔ ایسی اولاد وہ والدین کی یادوں پر پھولوں کے بجائے کانٹے بکھیر دیتی ہے۔ان کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہے۔ ان کے دن کا سکون رات کی نیند حرام کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض والدین تنگ آ کر کہہ دیتے ہیں اے کاش تو نے ایسی اولاد کو جنم ہی نہ دیا ہوتا کبھی بدعائیں کرتے ہیں۔ لیکن بددعا دینے سے پہلے والدین نے یہ سوچنے کی زحمت نہ گوارا کی کہ اولاد کا بگاڑ ہماری غلط تربیت کا نتیجہ خیر ہے۔ یاد رکھیں یہ والدین بگڑی ہوئی اولاد کا گلہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی سوچا ہے کہ اپنی ہی بو ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں۔ نیک تربیت اولاد کا حق ہے جس طرح ماں باپ کی خدمت ان کا احترام اور حقوق کی بجاآوری اولاد پر ضروری ہے۔ اسی طرح ماں باپ پر بھی اولاد کے حقوق ہیں۔ ان میں اولاد کی دینی تعلیم و تربیت نیک پرورش کرنا ان کا اہم حق ہے۔ جو والدین ذمہ داری ادا کریں گے دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ اور جو اس عظیم فریضہ سے غفلت برتیں گے ان پر بڑا عذاب اور وبال ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان والدین کو ہوگا جنہوں نے اپنی اولاد کی نیک تربیت نہیں کی، اولاد کی نیک تربیت کی دنیا و آخرت میں بے شمار فوائد ہیں تربیت یافتہ اولاد والے والدین کے لیے نیک نامی کا باعث سبب بنتی ہے۔ ان کے بڑھاپے کا سارا دشمنوں سے دفاع کا ذریعہ بدحواسی سے حفاظتی آثار ثابت ہوتی ہے۔ نیک اولاد ہی صحیح معنوں میں آنکھوں اور دلوں کا سرور بنتی ہے۔ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو دین خدا وندی دین خدا کی سربلندی اور خلق خدا کی خدمت گزاری میں صرف کرتی ہے۔ نیک اولاد والدین قوم قبیلہ علاقے اور شہر ملک کا نام روشن کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ بلند کردار اور خوش گفتار بن کر اخلاق سے عاری معاشرے کے لیے اعلی اخلاق کی بینی خوشبو اور بہترین نمونہ ثابت ہوتی ہے۔ ایسی اولاد اور والدین اسلامی تاریخ کے دامن پر ستاروں کی طرح دمکتے ہیں۔ اور ایک زمانہ ان کی مصنوعی روشنی سے جگمگاتا ہے سینکڑوں اور ہزاروں انسانوں کے لیے مینار نور ثابت ہوتی ہے۔ قیامت کے دن تربیت اولاد کے بارے میں سوال ہوگا والدین سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ انہوں نے بچوں کے اخلاق حسنہ اور نیک تعلیم دی یا نہیں۔ زندگی کی ابتدائی سال ہی بقیہ زندگی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارت مضبوط بنیادوں پر ہی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جو کچھ بچہ اپنے والدین ہی سے سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیونکہ بچے کا دماغ مثل موم ہوتا ہے اسے جس سانچے میں ڈھالنا چاہیں ڈال سکتے ہیں۔ بچے کی یادداشت خالی تختی کی ماند ہوتی ہے۔ اس لیے بچپن ہی سے سلام میں پہل کرنے کی عادت ڈالیں سچ بولنے کی عادت ڈالیں سنت کے مطابق کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے لباس پہننے راستہ چلنے بات کرنے بڑوں کا احترام کرنے وغیرہ کا عادی بنایا جائے۔ تو وہ نہ خود ان پاکیزہ اعداد کو اپنائے رکھتا ہے بلکہ اس کے لیے اس کے یہ اوصاف اس کی صحبت میں رہنے والے دیگر بچوں میں بھی منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کرنے والوں کے قول و فعل میں تضاد بھی بچے کے ذہن کے لیے تشویش ناک ثابت ہوگا۔ یہ کہ کام خود کرتے ہیں مثلا جھوٹ بولتے ہیں آپس میں جھگڑتے ہیں چوری کرتے ہیں غیبت کرتے دوسروں کا حق مارتے ہیں اور مجھے منع کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا اپنے بڑوں کی کوئی نصیحت اس کے دل پر گھر نہ کر سکے گی۔ الغرض تربیت اولاد کے لیے والدین کا اپنا کردار بھی مثالی ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ گھریلو ماحول کا بھی بچوں کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت شریف النفس پاکیزہ کردار اور خوش اخلاق ہوں گے تو ان کی زیر سایہ پروان چڑھنے والے اور پلنے والے بچے بھی اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوں گے۔ بچوں کی تربیت صرف پڑھانے تک ہی موقوف نہیں بلکہ مختلف رویوں باتوں اور باہمی تعلقات سے بھی بچوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے۔ تمام افراد کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے زندگی بسر کرنے کی تربیت کی جائے تاکہ وہ بچہ معاشرے کا مفید شہری بن سکے۔




