کالمزمظفرآباد

تحریر:۔محمد فرقان حیات

آج کے اس مادہ پرست اور پرفتن دور میں کوئی شعبہ زندگی لے لیں کسی بھی جگہ چلے جائیں فیکٹری ورکشاپس کسی دفتر سکول کالج یونیورسٹی عام پبلک مقامات ہسپتال بازار لاری اڈوں شاپنگ مالز گلی محلے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر دوسرا یا تیسرا بندہ ایک دوسرے کا مزاق اڑاتا ہوا برے القابات سے پکارتا ہوا اور ایک فیشن کے طور پر انتہائی فحاش گالیاں دیتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ جب دو دوست آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو وہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کے بجائے بڑی بڑی گالیوں برے القابات اور بھونڈے مزاق سے ملاقات کی ابتدا کرتے ہیں۔ اگر اتفاق سے وہ کوئی موجود مہذب شہری انکو روکنے کی کوشش کرے تو جواب میں فرمایا جاتا ہے کہ بھائی ہماری گالیاں اور مزاق تو ہماری گہری دوستی اور بے تکلفی کی نشانی ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے جتنی بے تکلفی ہوتی ہے اتنی دوستی پکی ہوتی ہے اللہ پاک معاف فرمائے۔(معاذ اللہ) عام تصور پایا جاتا ہے کہ ہنسی مذاق تفریح طبع کا زریعہ ہے۔ ایسا تصور رکھنے والے خواتین و حضرات علم شعور رکھنے کے باوجود اور بعض لاعلمی کے باعث بدزبانی بے ہودہ مذاق میں مبتلا ہو جاتے ہیں آخر کار یہ عادت اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ اسکی ممانعت کے لئے اللہ اور رسول کریم ﷺ کے احکامات بھی خاطر میں نہیں لاتے اس طرح کھلی گمراہی انکا مقدر بن جاتی ہے ایک دوسرے پر طعنہ زنی مثلاً چوٹیں کرنا پھبتیاں کسنا الزام دھرنا اعتراض جڑنا گالیاں دینا عیب جوئی کرنا اور کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑنے اور فساد برپا کرتے ہیں یہ سب افعال اسی لئے حرام اور مکروہات ہیں کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا کسی کو ٹانگ سے معذور ہونے پر لنگڑا کہنا کسی نابینا کو سرعام اندھا کہنا کسی کو اسکی بیماری یا معذوری یا عیب کی وجہ سے برے القابات سے پکارنا معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے یہ سب عادات اور طور طریقے کسی مغربی ملک میں نہیں بلکہ اسلام اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنائے گئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کے اپنائے ہوئے ہیں جو کہ دین اسلام سے کھلم کھلا مذاق ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ بچپن سے جب فحاش گالیاں اور برے القابات سے دوسروں کو پکارنے کی عادت جب انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر زندگی میں جتنا بھی بڑا مقام مرتبہ مل جائے مگر وہ عادت سے مجبور بچپن کے طور طریقے پر چلتے ہوئے وہی کرتا ہے جو اس نے بچپن سے سیکھا ہوتا ہے۔ اس کی ان عادات کی وجہ سے اسکی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ان میں غیبت بھی زبان کے غلط استعمال کا ایک عنوان ہے ہماری اجتماعی زندگی کو غیبت نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اس سے دلوں میں نفرتوں اور دوریوں نے جنم لیا ہے اس مرض کا شکار ہر طبقہ ہر فرد دکھائی دیتا ہے دین اسلام میں غیبت کے متعلق سب کچھ واضح جانتے ہوئے بھی ہم اس کا شکار ہیں نبی کریم ﷺ نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ سے دریافت فرمایا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری راہنمائی فرمائی جائے کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کے ایسے عیب کا تزکرہ کیا جائے جو اس میں موجود نہیں یہ تو واقعی غلط محسوس ہوتا ہے لیکن اگر اسکی خامیاں بیان کی جائیں جو واقعتاً اس میں موجود ہیں تو کیا درست ہو گا اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہی تو غیبت ہے کہ کسی کی خامیوں کا اسکی عدم موجودگی میں ذکر کیا جائے لیکن اگر اس کے اندر وہ خامیاں اور عیوب موجود نہیں ہیں تو یہ بہتان ہے گویا غیبت میں وہ تمام باتیں شامل ہیں جو کسی کی عدم موجودگی میں کی جائیں؛لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں دو چار آدمیوں کی بیٹھک لگی ہوتی ہے وہاں پر اپنے دوست احباب اور تعلق رشتہ داروں کی عدم موجودگی میں انکی غیبت اور تمسخر اڑایا جا رہا ہوتا ہے۔ ہماری محفلوں کا مقصد ہی دوسروں کی کی عدم موجودگی میں انکی خامیاں اور عیب بیان کرنا ہوتا ہے میں گزشتہ ایک سال سے تعلیم کی غرض سے برطانیہ میں ہوں میں نے گزشتہ ایک سال میں ایک بھی محفل ایسی نہیں دیکھی جہاں کسی کی عدم موجودگی میں اسکی خامیاں اور عیب بیان اور تلاش کیے جا رہے ہوں ہر شخص اپنے کام بس کام پر لگا ہے آپس کی ملاقاتیں بے مقصد نہیں بلکہ بامقصد ہوتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر مسلم معاشرے اور ملک میں یہ سب کچھ نہیں جب کہ دن اسلام کی بنیاد پر بنائے گئے اسلامی ملک میں یہ سب ہو رہا ہے جسکی بنیادی وجہ ہماری قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ سے دوری ہے۔ دین اسلام جتنا سچا مذہب تو دنیا میں کوئی نہیں جہاں پر ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی زندگی ہمارے لئے اپنی زندگیاں بسر کرنے کا عملی نمونہ ہے جبکہ ہماری دین اسلام سے دوری اور اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ چھوڑ کر ہم دنیا میں رسوا ہو کر رہ گئے برطانیہ میں حکومت غیر مسلم مگر قانون انصاف اور انسانیت موجود ہے ہم نہ ٹھیک طرح مسلمان اور انسانیت تو بالکل نہ ہم نہ سیکھ سکے۔

Related Articles

Back to top button