
بھارت میں مودی سرکار کے ہوتے ہوئے اور پاک بھارت کے درمیان موجودہ کشیدہ ماحول میں کشمیر کے مسئلہ پر نئی دہلی میں کانفرنس کا انعقاد یقینا باعث حیرت ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ خوش آئند بھی ضرور ہے۔ اِس کانفرنس میں کانگریس پارٹی کے ممبران نے بھی شرکت کی ہے اور ریاست کی آئینی حیثیت بحال کرنے پر اظہار خیال کیا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت ایک متنازعہ علاقہ کی ہے اس مسلمہ حقیقت سے کسی کو انکار نہیں اس تنازعہ کے فریق پاکستان ہندوستان اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام ہیں اِس قضیہ کو قائم ہوئے تقریباً 3چوتھائی صدی گزر چکی ہے۔ قوموں کی زِندگی میں آزادی کے حصول کی جدوجہد کیلئے اگرچہ یہ عرصہ طویل نہیں سمجھا جاتا تاہم اصل حقیقت تو یہی ہے کہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی کے باعث اِس کشمکش میں پاکستان اور بھارت نے پچھلے 78سالوں سے اپنے معاشی و اقتصادی وسائل اس مقصد کے حل کیلئے جھوک رکھے ہیں۔ ہندوستان کے غیرلچکدار اور معاندانہ روّیہ نے حالات اِس نہج پر پہنچا دیئے ہیں۔ اِس عرصہ میں دونوں ممالک کے درمیان جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں لیکن اُن کے ذریعے سے اِس کا حل نہ نکل سکا یہ حقیقت سب پر آشنا ہے کہ جنگوں میں تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا بالآخر جنگ بندی کیلئے گفت و شنید کا سلسلہ ہی شروع کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ممالک اِس مسئلہ کے حل کیلئے اعتماد سازی کی فضا کو قائم رکھنے کیلئے متعدد بار کوششیں بھی کر چکے ہیں لیکن اُنہیں فوراً ٹھیس بھی پہنچا دی جاتی ہے اور کسی حل کی جانب پیش رفت نہیں ہو پاتی اَب تو بھارت نے 5اگست 2019ء سے اِس کی متنازعہ حیثیت ختم کر کے اِس کو اپنا مستقل علاقہ بنا لیا ہے اور وہاں پر ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جس سے وہاں کی مسلمان آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ ہندوستان کی کوشش ہے کہ پورے بھارت سے ہندو قومیت کے لوگ وہاں جا کر آباد ہو جائیں اور وہ دُنیا کو یہ چہرہ دکھا سکے کہ یہاں تو ہندو قوم اکثریت میں بس رہی ہے لہٰذا یہ علاقہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
پاکستان نے تو ہمیشہ سے ہی اپنے اصولی مؤقف کی تائید جاری رکھی ہے اور اس کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کرانے پر زور دیا ہے پاکستان اِسی اصولی مؤقف پر ہمیشہ سے قائم ہے۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت خود یہ تنازعہ لے کر سلامتی کونسل میں گیا تھا۔ اِس کے حل کیلئے منظور ہونے والی قرار دادیں سلامتی کونسل کے چارٹر پر موجود ہیں۔ پاکتسان پُرامن طریق سے رہتے ہوئے ان قرار دادوں کے حل پر زور دیتا آیا ہے۔ مگر ہندوستان کی نیت میں فطور ہے وہ اِس معاملہ میں ٹس سے مس نہیں ہوتا مودی سرکار نے اگست 2019ء میں جس طریقے سے اس تنازعہ کو ختم کرنے کی بھونڈی کوشش کی تھی اُس کو دونوں اطراف کے کشمیریوں نے سرے سے رَد کر دیا ہے اور اِس اَمر پر زور دیا ہے کہ اِس کا حل دونوں ممالک کے علاوہ تیسرے اہم فریق جو کہ کشمیری خود بھی ہیں کی رائے کے خلاف کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گا۔ بھارت کی اِس نیت پر یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ اگر بالفرض وہ سمجھتا ہے کہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کر دی ہے اور ریاست کو ہندوستان میں ضم کر دیا گیا ہے کہ تو پھر اِسے مقبوضہ کشمیر میں اتنی مزاحمت کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ وہاں کے لوگ آج بھی سینوں پر گولیاں کیوں کھاتے ہیں اور اپنی لاشوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر قبر میں اُترتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہندوستان نے ابھی بھی 7لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ کشمیر میں جمع کر رکھی ہے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہندوستان کی کسی اور ریاست میں بھی اتنی ہی بڑی تعداد میں افواج موجو دہیں بھارتی مظالم کی آواز صرف ریاست جموں و کشمیر کے طول عرض سے ہی کیوں بلند ہو رہی ہے۔ یہ اس بات کی غماز ہے کہ ہندوستان کی طرف سے ختم کی گئی ریاستی حیثیت کو کسی کشمیری قوم نے آج تک قبول نہیں کیا ہے اور نہ وہ کریں گے۔ لہٰذا مودی سرکار کو چاہیے کہ اِس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے پائیدار اور مستحکم امن کے قیام کیلئے پیش رفت کو یقینی بنائیں اِس طرح دونوں ممالک میں امن بحال رہے گا وہاں کی عوام سکھ کا سانس لیں گے اور دونوں ممالک کے ہاں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کا دور ختم ہو گا۔ باالخصوص بھارت اپنے دفاعی سازوسامان کی تیاری اور دوڑ سے نکل کر غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے افراد کیلئے روزگار اور خوشحال زِندگی کے مواقع تلاش کر سکے گا۔پاکستان میں تو اِس تنازعہ کے حل کیلئے آئے روز اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں۔
یہاں یہ اَمر قابل ذِکر ہے کہ نئی دہلی میں حال ہی میں منعقدہ امن کانفرنس میں مقبوضہ وادی میں آرٹیکل 370کے بحالی پر زور دیا گیا ہے تاکہ کشمیری نوجوانوں میں روزبروز بڑھتی ہوئی تشویش کو ختم کیا جا سکے۔ کانفرنس میں بھارتی حکومت پر بھی یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرے۔ اِس کانفرنس میں کانگریسی لیڈران اور بھارتی لوگ سبھا کے ”آغا روح اللہ مہری“ موجود تھے۔ اِس کے علاوہ ”اوپی شاہ“ سمیت دیگر مقررین نے بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات کو معمو ل پر لانے کیلئے اور اس کی آئینی حیثیت بحال کرنے کیلئے تجاویز دی ہیں جن میں اِس اَمر پر زور دیا گیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں حالات 2019ء جیسے نہیں ہیں اور دفعہ 370ختم کرنے سے حالات ابھی تک معمول پر نہیں آ سکے لہٰذا ہندوستان کو اِس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے اور اُسے بہرصورت ریاست کا درجہ بحال کرنا ہو گا۔ اِس کانفرنس میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر قائد میرواعظ عمر فاروق کو بھارت کی جانب سے شرکت نہ کرنے دی گئی تاہم اُنہوں نے اپنے پیغام میں بھارت کے اِس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری دہشت گردی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اُنہوں نے بھی بات چیت کو تنازعہ کا واحد حل قرار دیا اور یہ کہا کہ 370کے خاتمہ کے بعد لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہاں پر مظلوم عوام پر خوف و دہشت کی فضا قائم ہے۔ باالخصوص تو نوجوان نسل میں بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے لہٰذا مذاکراتی عمل کو شروع کرنے پر زور دیتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ یہ حل طلب تنازعہ علاقائی امن و استحکام کو بھی برباد کر دے گا۔ لہٰذا اِس کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات اُٹھانے ہونگے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں ہر طبقہ فکر کے لوگ کشمیر کی آزادی پر پُرامن آواز بلند کرتے رہتے ہیں باالخصوص ہمارے میڈیا نے تو اِس کو ہمیشہ سے ہی زندہ رکھا ہے اور ہر وقت اِس کے حل کیلئے ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ مسئلہ کو زندہ رکھنے اور اس کے حل کیلئے ہمارے ہاں بھی کانفرنسز اور سیمینارز کا سلسلہ تواتر سے قائم رہنا چاہیے اور یہ مخصوص فورم تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہمارے تعلیمی اداروں باالخصوص یونیورسٹی کی سطح پر اِن کا ہتمام کرنا ضروری ہے تا کہ ہماری نوجوان نسل تعلیمی اداروں میں تحقیق کرتے ہوئے اِس اہم مسئلہ سے آگاہ رہے اور اِس کے حل کیلئے موزوں اور مناسب تجاویز سامنے لا سکیں اور یہ تجاویز یقینا ہمارے ارباب اختیار کیلئے ممدومعاون ثابت ہونگی اور ہمارے اِس خطہ میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔
٭٭٭٭٭




