کالمز

ثناء کی موت قتل یا خُودکُشی؟؟؟

تحریر: ثانیہ منور عباسی

ثناء رفاقت کا تعلق دھیرکوٹ آزاد کشمیر سے تھا۔ ثناء کی عُمر 23 سال تھی۔ ثناء نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی۔ ایف ایس سی پری میڈیکل کرنے کے بعد وہ مُستقبل کے خواب سجانے ضلع باغ چلی گئیں اور وہاں پروفیشنل کورس کا آغاز کیا۔ کورس مُکمل کرنے کے بعد ثناء نے وہیں مُلازمت اختیار کر لی۔اسی اثنا میں باغ کے مشہور کارڈیالوسٹ ڈاکٹر منظور سے اُن کی مُلاقات ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بات شادی تک جا پہنچی۔ ڈاکٹر منظور پہلے سے شادی شدہ تھے اور تین بچوں کے باپ ہیں۔ اُن کی عمر تقریباً پنتالیس سے پچاس سال کے درمیان تھی لیکن اپنی شخصیت اور فزیکل فٹنس کی بدولت وہ اپنی اصل عمر سے کم نظر آتے تھے۔ ثناء کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ اِس شادی کے لیے رضامند نہ تھیں مگرنصیب کا ہونا ٹالا نہیں جا سکتا اور ثناء کی خوشی کی خاطر یہ شادی طے پائی۔ مقتولہ ثناء کی شادی کو تقریباً ساڑے تین سال ہو چُکے تھے اور اُن کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ لواحقین کے بقول اِن تین سالوں میں ڈاکٹر منظور نے ثناء پر بہت تشدد کیا۔ پہلی بار جب شادی کے پانچ ماہ بعد ثناء کو اِس بات کا علم ہوا کہ ڈاکٹر منظور کی پہلی شادی کی دو بیٹیاں اور بھی ہیں چوں کہ اِس سے پہلے تو اُن کو صرف اتنا معلوم تھا کہ اُن کا چھبیس سالہ ایک بیٹا ہے لیکن یہ حقیقت جاننے کے بعد ثناء کا سوال کرنا بتنا تھا کیوں کہ وہ اِس بات سے ناوقف تھیں اِس پر ڈاکٹر منظور نے مار پِیٹ کی۔ اور کئی بار تو ٹوکہ لے کر حملہ کیا۔ثناء نے کئی بار اِس ظلم سے تنگ آکر میکے کا رخ کیا لیکن ہر بار صلح صفائی سے معاملہ طے پاتا اور ثناء بھی اپنی معصوم بچیوں کی وجہ سے سمجھوتہ کر لیتیں۔ مگر کون جانتا تھا کہ یہ سمجھوتہ ثناء کے لیے جان لیوا بن جائے گا اور آخرکار وہ دِن آگیا 13 اکتوبر کو اچانک ثناء کی خُودکُشی کی خبر ملتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ثناء نے خودکُشی کیوں کی۔جو اپنی کم سن بیٹیوں کے لیے ہر بار ظلم سہنے کو تیار ہو جاتیں ہر بار سمجھوتہ کر لیتیں وہ ساری عمر کے لیے اپنی معصوم بیٹیوں کو تنہا کرجانے کا فیصلہ کیسے کر سکتی تھی اور اگر کُچھ پل کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ خود کُشی ہے تو پھر یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ ڈاکٹرمنظور نے اگر گھر میں پستول رکھی بھی تھی تو وہ لوڈڈ کیوں تھیں۔ ورثا کا کہنا ہے کہ ثناء کو پستول چلانا نہیں آتی تھی اور نہ ہی اُن کے والدین کے گھر میں پستول یا کوئی دوسرا اصلحہ موجود تھا۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر منظور ثناء کو ہسپتال لے کر جاتے ہیں اُن کے ہاتھ دھولاتے ہیں زخم والی جگہ کہ صاف کرتے ہیں اور ڈاکٹرز سے پرچی کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پنڈی ریفر کرنے کے لیے پرچی بنا کر دیں جب کہ ثناء کی تو سانسیں رُک چکیں تھیں۔ اب اگر ثناء کی موت خُود کُشی ہے تو ڈاکٹر منظور نے سارے ثبوت کیوں میٹائے ہیں۔وہ خود ایک ڈاکٹر ہیں کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ پولیس کیس ہے ڈیڈ باڈی کو پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہاتھ لگانا اُن کے لیے مُشکل کا باعث بن سکتا ہے مگر پھر بھی اُنہوں نے ایسا کِیا۔آخر کیوں؟ ڈاکٹر منظور کا ثناء پر ظلم و جبر اور پھر اچانک ثناء کی موت یہ سب کس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔لواحقین کے مُطابق ثناء کی موت خُود کُشی نہیں بل کہ قتل ہے۔ لیکن اصل حقائق سامنے آنے کے بعد ہی اِس کا بہترفیصلہ کیا جا سکتا ہے اور اصل حفائق صرف اُس صورت میں سامنے آئیں گے جب اِس واقعہ کا صفحہ چند دن بعد پلٹا نہیں جائے گا بل کہ اِس پر تحقیق کی جائے گی۔ چوں کہ ہمارے مُعاشرے میں ایسے بہت سارے واقعات کو پسِ پشُت ڈال دیا جاتا ہے۔ اور انصاف کہیں دُور پیچھے رہ جاتا ہے۔چند دن روزوشور سے آواز اُٹھائی جاتی ہے اور پھر ظلم اپنی طاقت کے باعث جیت جاتا ہے اور انصاف ٹکوں پر بِک جاتاہے۔ثناء بھی اِسی مُعاشرے کی بھینٹ چڑھ گئی اور اِس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا اور اگر آج انصاف نہ مل سکا تو کل بھی ایسا ہی ہوگا۔ ثناء، رفاقت عباسی کی بیٹی نہیں بل کہ پوری قوم کی بیٹی ہے۔ وہ اِس معاشرے کی بہن بیٹی ہے۔ لہذا وزیراعظم آزاد کشمیر، آئی جی آزاد کشمیر اور باقی تمام صاحبان سے التجا ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے۔ثناء کے کیس کو اُس وقت تک چلایا جائے جب تک انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں ہو جاتا۔اور اگر حقائق کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر منظور نے ثناء رفاقت کا قتل کیا ہے تو میری اپیل ہے کہ قاتل کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا جائے تاکہ ایک ظالم کی عبرت ناک موت کسی دوسرے سرکش کو جنم نہیں لینے دے گی۔

Related Articles

Back to top button