تنازعات کا حل بات چیت، پاک افغان کشیدگی سے پیچھے ہٹیں، سرادر مسعود

مظفرآباد(محاسب نیوز) پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ، چین اور اقوام متحدہ اور آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر سردار مسعود خان نے خبردار کیا ہے کہ استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکراتی عمل کی ناکامی خطے کو نئے عدم استحکام اور تشدد کی طرف دھکیل سکتی ہے۔انہوں نے ترکی اور قطر کی سرپرستی میں جاری مذاکرات کے تعطل پر تبصرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کے دہانے سے پیچھے ہٹیں اور تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کو ہی ترجیح دیں۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،انھوں نے کہا کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو اس کی لپیٹ میں نہ صرف سرحدی علاقے بلکہ پورا علاقائی امن اور اقتصادی بحالی کے امکانات بھی آ جائیں گے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ استنبول مذاکرات کے دوران افغان طالبان کا وفد قندھار اور کابل کی ہدایات کا پابند دکھائی دیا، جس کے باعث کوئی بامعنی پیش رفت ممکن نہ ہو سکی۔ان کے مطابق دوحہ میں جس جذبے سے بات چیت کا آغاز ہوا تھا وہ استنبول میں کمزور پڑ گیا، کیونکہ طالبان کے اندر موجود شدت پسند عناصر نے مصالحتی عمل کو ناکام بنانے کے لیے تحریری وعدوں سے انکار کیا اور مذاکرات کے دوران بھی افغان سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دئیے رکھی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں دوحہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں، جو اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتیں۔سردار مسعود خان نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگران کمیٹی کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں چھوڑے گئے جدید اسلحے سے لیس ہیں اور مشرقی صوبوں کنڑ، خوست، ننگرہار اور پکتیکا میں کھلے عام سرگرم ہیں۔ان کے بقول تربیتی کیمپوں کے مقامات سے افغان حکام، پاکستانی انٹیلی جنس ادارے اور بین الاقوامی ایجنسیاں بخوبی واقف ہیں، جبکہ یہ نیٹ ورکس بھارت کی مالی و عملی معاونت سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کوئی غیر اعلانیہ نہیں بلکہ ایک فعال اور جاری جنگ ہے جو پراکسیز اور دہشت گردی کے ذریعے پاکستان پر مسلط کی جا رہی ہے۔سردار مسعود خان نے واضح کیا کہ پاکستان کا ضبط لامحدود نہیں۔ جب ہمارے فوجی اور شہری بار بار نشانہ بنیں گے تو ردعمل متناسب اور دو ٹوک ہوگا۔ان کے مطابق جنگ کا جواب جنگ ہی ہوتا ہے، تاہم ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کہ حالات اس نہج تک نہ پہنچیں۔




