لالہ محمد حنیف اعوان — اولیاء کرام کی بستی کا درویش سیاستدان

مظفرآباد، یہ وہ بستی ہے جسے اہلِ دل اور اربابِ معرفت اولیاء کرام کی بستی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس خاکِ مقدس نے ہمیشہ ایسی شخصیات کو جنم دیا جنہوں نے اپنی بصیرت، محبت اور خدمت سے معاشرے کو روشنی بخشی۔ انہی نایاب گوہروں میں سے ایک درویش صفت، دیانت دار، اور باکردار شخصیت سابق وزیر لالہ محمد حنیف اعوان تھے، جنہوں نے نہ صرف سیاست بلکہ سماجی خدمت کے میدان میں بھی ایک روشن مثال قائم کی۔لالہ محمد حنیف اعوان یکم جنوری 1951 کو مظفرآباد کے باوقار اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد عبدالطیف اعوان اور دادا ٹھیکیدار میر عالم اعوان شہر کے معزز اور بااصول افراد میں شمار ہوتے تھے۔ بچپن ہی سے ان پر خاندانی تربیت، مذہبی رجحان اور اخلاقی اصولوں کا گہرا اثر تھا۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول چہلہ بانڈی سے حاصل کی، بعد ازاں لاہور بورڈ سے میٹرک مکمل کیا۔ پروفیسر وقار ملک مرحوم ان کے اساتذہ میں شامل تھے، جنہوں نے ان کی شخصیت سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔کالج کے زمانے میں وہ طلبہ سیاست میں سرگرم ہوئے اور کالج یونین کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ تاہم خاندانی ذمہ داریوں اور محدود وسائل کے باعث بی اے مکمل نہ کر سکے اور عملی زندگی کا آغاز کیا۔ لالہ محمد حنیف اعوان نے سیاست میں قدم این ایف کے پلیٹ فارم سے رکھا، جہاں وہ مرکزی سیکرٹری جنرل کے منصب پر فائز رہے۔ بعد ازاں انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات سے متاثر ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی (آزاد کشمیر) میں شمولیت اختیار کی۔ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے قیام کے موقع پر وہ سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کے مشاورتی رفقاء میں شامل رہے۔
لالہ محمد حنیف اعوان نے اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ اصول، دیانت داری اور عوامی خدمت کو مقدم رکھا۔ 1991 کے عام انتخابات میں انہوں نے پہلی بار حلقہ کوٹلہ سے تلوار کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔ اگرچہ پہلی کوشش میں کامیاب نہ ہوئے، مگر عوامی محبت اور عزت ان کا اصل سرمایہ بن گئی۔آج کے دور میں جہاں سیاست کو ذاتی مفاد اور روزگار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، وہاں لالہ محمد حنیف اعوان جیسے سیاستدانوں کا وجود دیانت، شرافت اور اصول پسندی کی علامت تھا۔ آج اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو درجنوں سیاسی کارکن اور رہنما سیاست کو کاروبار اور دولت کمانے کا ذریعہ بنا چکے ہیں، مگر حنیف اعوان کی سیاست کا حاصل کامیابی نہیں، بلکہ عزت و دیانت تھی۔کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ لالہ حنیف اعوان نے ایک روپے کی کرپشن کی ہو۔ وزارت کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو واضح الفاظ میں ہدایت دی کہ وہ سرکاری کاموں میں مداخلت نہ کریں۔ ان کے دورِ وزارت میں جو بھی ترقیاتی اسکیمیں شروع ہوئیں، وہ 100 فیصد مکمل ہوئیں — کسی کمیشن، بدنیتی یا ذاتی فائدے کے بغیر۔ یہی وجہ تھی کہ چند کارکن اُن کی سخت دیانت داری سے نالاں ہوئے، مگر لالہ حنیف اعوان نے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ نتیجتاً وہ اگلے انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے، مگر عوام کے دلوں میں ان کا مقام ہمیشہ بلند رہا۔لالہ حنیف اعوان اکثر کہا کرتے تھے۔سیاست اگر عبادت کے جذبے سے کی جائے تو یہ لوگوں کے دلوں کو فتح کر لیتی ہے۔ان کی سیاست کا مقصد دولت یا اقتدار نہیں بلکہ عوامی خدمت اور شفاف نظام کا قیام تھا۔ وہ اکثر اپنے ساتھیوں سے کہتے کہ میں سیاست میں پیسہ کمانے نہیں، عزت کمانے آیا ہوں۔ یہ عوامی خزانہ عوام کا ہے، اور اسی پر خرچ ہوگا۔ان کے فنڈز کے استعمال کی شفافیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دور میں بننے والی گلیاں، نالیاں اور سڑکیں آج بھی مضبوطی سے قائم ہیں۔ بلوچی پل، ایسٹرن بائی پاس، ویسٹرن بائی پاس، اور ٹیلی منڈی روڈ جیسے منصوبے ان کی دور اندیشی اور دیانت داری کے عملی نمونے ہیں۔لالہ محمد حنیف اعوان ایک کتب دوست، ادب شناس اور درویش صفت انسان تھے۔ ان کی گفتگو میں نرمی، مزاج میں خاکساری، اور لباس میں سادگی نمایاں تھی۔ وہ حضرت میاں محمد شفیع جھاگویؒ کے مرید تھے اور روحانی تربیت کے حوالے سے ان سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔ وہ اکثر سہیلی سرکار کے مزار پر حاضری دیتے اور شہر کے امن و سلامتی کے لیے دعا کرتے۔ اپنی تقاریر کا آغاز ہمیشہ انہی الفاظ سے کرتے۔یہ مظفرآباد اولیاء کرام کی بستی ہے، یہاں محبت کے چراغ کبھی نہیں بجھ سکتے۔لالہ محمد حنیف اعوان اپنی والدہ کے نہایت فرماں بردار فرزند تھے۔ وہ اپنی اولاد کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے۔میں تمہیں دولت نہیں بلکہ کردار دے کر جا رہا ہوں۔ میری میراث میراصاف دامن ہے،میں نے کوشش کی ہے کہ کوئی تمہیں چور کا بیٹا نہ کہے۔انہوں نے ہمیشہ حلال رزق، سچائی اور امانت داری کو اپنی زندگی کا شعار بنایا۔لالہ حنیف اعوان نے دریا بچاؤ تحریک، دارالحکومت منتقلی کے خلاف تحریک، اور عوامی حقوق کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ مظفرآباد کے ہر وارڈ، ہر محلے میں عوام کے دکھ درد بانٹنے والے رہنما تھے۔2016 میں بیماری کے باعث سیاست سے کنارہ کش ہوئے۔ الشفاء ہسپتال میں علاج کے بعد اگرچہ کچھ بہتری آئی، مگر وہ سیاسی میدان سے دور ہو گئے۔ اس دوران شہر بھر کی مساجد میں ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کی گئیں۔جب وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو مظفرآباد کی فضا سوگوار تھی۔ ان کے جنازے میں عوام کا سمندر امنڈ آیا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل میں ایک ہی صدا گونج رہی تھی —
“ایسے دیانت دار لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں لالہ محمد حنیف اعوان کی سیاسی بصیرت، روحانی وابستگی، اور اخلاقی بلندی نے انہیں ایک ایسا مقام عطا کیا جو زمانہ یاد رکھے گا۔
اولیاء کرام کی بستی کا یہ درویش سیاستدان آج ہمارے درمیان نہیں، مگر ان کے کردار کی خوشبو مظفرآباد کی فضا میں ہمیشہ مہکتی رہے گی۔
لالہ محمد حنیف اعوان زندہ ہیں — اپنے کردار، اپنی خدمت اور اپنی سچائی میں۔



