مظفرآباد

علامہ محمد اقبالؒ کی فکر وشاعری کا محور عشق رسول تھا،علامہ اسحاق نقوی

ہٹیاں بالا(بیورورپورٹ)امیر جماعت اہل سنت آزاد کشمیر علامہ سید محمد اسحاق نقوی نے یوم اقبال کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی ساری فکر و شاعری کا محور عشق رسول ﷺ تھا۔ اقبال کی روحانی بلندی، فکری گہرائی اور ان کی خودی کا راز اسی عشق مصطفیٰ ﷺ میں پوشیدہ تھا۔ انہوں نے اپنے کلام میں جابجا رسولِ اکرم ﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کیا اور امتِ مسلمہ کو یہی پیغام دیا کہ جب تک عشق رسول ﷺ کو اپنے دلوں میں زندہ نہیں کریں گے، نہ ایمان کامل ہوگا اور نہ کامیابی نصیب۔ اقبال کے نزدیک عشقِ رسول ﷺ ہی ایمان کی روح اور ملت کی بقا کا ضامن ہے۔علامہ اسحاق نقوی نے کہا کہ شاعرِ مشرق کے افکار و خیالات دراصل امت مسلمہ کے ہر دردمند انسان کی آواز تھے۔ اقبال نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کے دلوں میں آزادی، غیرت اور خودی کی وہ روح پھونکی جس نے ایک نئی صبح کی نوید سنائی۔ تاہم افسوس کہ آج فلسف? خودی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے، وہ کسی لحاظ سے قابلِ فخر نہیں۔ اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو یقینا پاکستان کی موجودہ حالتِ زار دیکھ کر افسردہ ہوتے، کیونکہ آج بھی پاکستان حقیقی معنوں میں آزاد نہیں، اس کی سالمیت اور خودمختاری مغربی و یورپی اثرات کی زد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے حکمران اور پھر عوام اپنے آپ کو اقبال کے افکار و نظریات کے سانچے میں ڈھالیں تاکہ پاکستان فکری، معاشی اور اخلاقی لحاظ سے مضبوط ہو کر عالمِ اسلام کا مرکز و محور بن سکے۔ علامہ سید محمد اسحاق نقوی نے کہا کہ علامہ اقبال نے جہاں برصغیر کے مسلمانوں میں جذب? حریت بیدار کیا، وہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کو قرآن کے احکامات پر کاربند ہونے، سیرتِ رسول ﷺ سے رہنمائی لینے، مشاہیرِ اسلام کے کردار کا مطالعہ کرنے اور اسلامی روایات و اقدار کو اپنانے کی دعوت دی۔امیر جماعت اہل سنت آزاد کشمیر نے مزید کہا کہ اقبال کے ہمہ گیر کلام میں علم، عمل، ایمان اور خودی کا پیغام نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ مصورِ پاکستان نے ایک ایسے وطن کا خواب دیکھا تھا جو اسلامی عدل و مساوات اور روحانی اقدار کا عملی نمونہ ہو، مگر نصف صدی سے زائد گزرنے کے باوجود ہم اس خواب کی تعبیر سے کوسوں دور ہیں۔ ان کے کلام سے محض شعری لطف حاصل کیا گیا مگر اس میں پوشیدہ پیغام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ان کے نام سے ادارے تو قائم ہوئے مگر ان کے نظریات کو عملی شکل دینے کی کوششیں مطلوبہ نتائج نہ دے سکیں۔

Related Articles

Back to top button