
قارئین کرام! پانچ اکتوبر کو ہر سال عالمی سطح پر ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے۔جس میں ٹیچر کے احترام اور کام پر تاثرات سامنے آتے ہیں۔علم روشنی ہے, اس کے بغیر زندگی گزارنے کا راستہ بھی نظر نہیں آتا۔علم دینے کے لیے معلم کی ضرورت ہوتی ہے۔جو کچھ معلم دیتا ہے اسے تعلیم کہتے ہیں۔دنیا میں تمام تر موجودہ ترقی تعلیم کی محتاج ہے۔اور تعلیم معلم کی محتاج ہے۔معلم کو استاد بھی کہتے ہیں۔ہمارا دین بھی بتاتا ہے کہ ہرگز عالم اور جاہل برابر نہیں ہوتا۔استاد ایلیمنٹری ہو یا کالج یونیورسٹی کا ہو مقام و مرتبہ کے لیے محاظ سے قابل احترام ہیں۔بلکہ غور کیا جائے تو ایلیمنٹری ٹیچر کا کام مشکل اور زیادہ اہم ہوتا ہے۔جو ہر طرح کی تربیت کے ساتھ ساتھ مختلف زبانیں سکھانے کی بنیاد رکھتا ہے۔کسی بھی زبان کے حروف کی اشکال،نام اور آواز سکھاتا ہے۔اس کے بعد کا کام نسبتا آسان ہوتا ہے۔مسجد کا استاد بھی اسی طرح اہم ہے۔استاد کا مقام اعلی کیوں نہ ہو کہ کہا جاتا ہے والد عرش سے فرش کا ذریعہ بنا یعنی پیدائش کا ذریعہ بنا اور روحانی باپ استاد فرش سے عرش پر لے جانے کا ذریعہ بنا۔سچ ہے استاد کمر درد اور شخصیت سازی کا کام انجام دیتا ہے۔آدمی سے انسان بناتا ہے۔
قارئین کرام! دنیا کی تمام تہذیبوں اور ممالک میں استاد کو قابل قدر مقام حاصل ہے۔لیکن اصل مقام اسلام میں ملتا ہے۔کیونکہ اس سے بڑی دلیل ہو نہیں سکتی۔کہ وجہ تخلیق کائنات کا فرمان ہے کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے”۔اس سے بھی زیادہ دلیل یہ ہے کہ پیغمبروں کی تعلیم و تربیت کا کام قدرت کاملہ نے اپنے پاس رکھا ہے۔کیونکہ استاد کا مقام شاگرد سے اعلیٰ ہوتا ہے۔مختصراً یہ کہا جاتا ہے
نسل آدم پہ معلم کا بڑا احسان ہے
اس کے ہاتھوں سے بنا جو بنا انسان ہے۔
ویسے بھی روحانی رشتہ زیادہ مقدس ہوتا ہے۔جو شخص سے شخصیت بناتا ہے۔جوہر قابل کی تلاش کرتا ہے۔روح کو فنا نہیں۔استاد آداب زندگی سکھاتا ہے زندگی کے راز اور حکمت بتاتا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ سیکھنے کا عمل ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے۔اس طرح ماں کی حیثیت ایک استاد کی بھی ہے۔ماں کی گود میں بچہ جو زبان سنتا ہے۔از خود سیکھ جاتا ہے۔اور بولنے کی عمر کو پہنچ کر بولنا شروع ہو جاتا ہے۔یہی اس کی مادری زبان ہوتی ہے۔
قارئین کرام! جہالت بڑی غربت ہے۔اس جہالت سے نکالنے کا ذریعہ ہر سطح کا اور ہر مذہب کا استاد ہے۔دور حاضر میں جتنی حیران کن سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی ہو چکی ہے یہ ساری استاد کی مرہون ہے۔اسلام نے استاد کو اعلی مقام دیا ہے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کا واقعہ استاد کے مسلمہ احترام کی عمدہ مثال ہے۔
اساتذہ کرام! ٹیچر ڈے کی نسبت سے مبارکباد قبول فرمائیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ یاد رکھیں کہ یہ مقام کام کی نسبت سے ہے مقام حاصل کیا جاتا ہے اور اسے برقرار رکھنا بھی آسان نہیں۔اس پیغمرانہ پیشہ کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سطح پر محنت، لگن اور اخلاص کی ضرورت ہے۔یاد رکھیں کہ سفید کپڑے پر لگنے والا داغ نمایا نظر آ جاتا ہے۔جس سے بچنا ہوگا۔ اصل عزت کام میں ہے۔اس مقدس کام کو محض مراعات کے زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔اگرچہ عالمی اور سماجی بے فکری بھی ضروری ہے مگر غور کریں کہ یہ کام صدقہ جاریہ بھی ہے۔جو سب سے بڑا معاوضہ ہے۔اور اصل زندگی کے لیے کام ائے گا۔استاد کے کام کو زیادہ بامقصد بنانے کے لیے نظام تعلیم اور تعلیمی سہولتوں کو مزید بہتر کرتے رہنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اس پر آئندہ گزارش کرونگا۔
ساری دنیا میں ٹیچر ڈے منانے کی روائیت عمدہ ہے اس سے کچھ سیکھنا چاہیے۔