کالمز

”سیکورٹی رِسک کلب آف پاکستان“

اڈیالہ جیل میں مقید عمران خان اس لحاظ سے قابل مبارکباد ہیں کہ وہ پاکستان کے تاریخی ”سیکورٹی رسک کلب آف پاکستان“ بہ الفاظ ِ دیگر انجمن خطرناکان ِ قومی سلامتی کے باضابطہ رکن بن گئے ہیں۔یہ کلب بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود پاکستان۔بانی ِ پاکستان کے کوئٹہ سٹاف کالج کے خطاب کے چندجملوں کو حالات کے مروج اور موجود ترازو پر تولا جائے تو اس میں سے بھی کسی طبقے اور ادارے کی توہین کے کئی پہلو برآمد ہوتے ہیں۔بابائے قوم اس ملک کے خاک نشینوں کو معزز اور محترم اداروں سے بالاتر قراردے رہے ہیں۔وہ خاک نشین پاکستان کے اٹھہتر سالہ فریم ورک میں جن کا مقدر پیدا ہونا رینگ کر زندگی کے دن پورے کرنا اور اگلے جہان کی راہ لینا ہے۔یہ خاک نشین قومی وسائل کو حسرت اور حیرت سے اسی طرح تکتے ہیں کہ جس طرح بچے چاند اور سورج کو دیکھتے ہیں اور وہاں پہنچ کر چرخا کاتتی چاند کی بڑھیا کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔ان خاک نشینوں کو دس لاکھ کے صحت کارڈ کے ذریعے قومی وسائل میں شریک کیا جائے تو بہت سی جبینوں کی شکنیں قابل دید ہوتی ہیں۔اس سے بھی بڑا ظلم یہ کہ خاک نشینوں کی سب سے کمتر قسم مزدوروں لاچاروں کو سڑکوں سے اُٹھا کر پناہ گاہوں میں اچھا کھانا اور گرم بستر دے کر ریاست کے معمولی سے وسائل میں شریک کیا جائے تو گویاکہ آپ نے سپین کے میلے میں سرخ رومال لہرادیا۔یہ غصہ بڑی حد تک جائزہے کہ جنہیں قدرت نے غربت اور حالات کی چکی میں پسنے کی ہاتھ کی لکیر کے ساتھ پیدا کیا ہو انہیں ان حالات سے چھٹکارہ دلانا تو قرین انصاف نہیں۔ یوں اب عمران خان بھی باضابطہ طور پر پاکستان کی تاریخ کے ان لوگوں کی فہرست کا حصہ بن گئے ہیں جو اپنے سیاسی سفر کے کسی نہ کسی موڑ پر سول بالادستی قانون اور آئین کی حکمرانی اور شخصی آمریت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہو کر اس کی قیمت چکاتے رہے ہیں۔اس فہرست میں اکثر نام سیاسی ہیں مگر اس میں کئی غیر سیاسی نام بھی شامل ہیں۔جن میں سب سے نمایاں نام پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مضبوط علامت ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔جو شخص پاکستانیوں کے تحفظ کا احساس اور اثاثہ تھا وقت بدلا تو ایک بوجھ اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن گیا۔ایک روز حالات سے لڑتے لڑتے تھک کر اس قومی ہیرو نے جو الفاظ ادا کئے وہ ہمارے قومی تاریخ میں تیر کی طرح ترازو ہو کر رہ گئے ہیں۔”اس ملک کے لئے کام کرنے پر افسوس ہے۔یہاں جو ملک کی خدمت کرے گا وہ مجرم ہوگا جو جتنی بڑی غداری کرے گا وہ اتنا ہی محبوب ہوگا“۔یہ حالات کا نوحہ نہیں ماضی کی کہانی اور مستقبل کا آئینہ تھا۔پاکستان کے معروف صحافی جبار مرز ا نے اپنی کتاب”پاکستان کا آخری بڑا آدمی“ میں انکشاف کیا تھا کہ اگر اس وقت کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی انکار نہ کرتے تو ڈاکٹر قدیر خان کو امریکہ کے حوالے کیا جانا تھا۔بعد میں مشرف نے خان کی کردار کشی اور ان سے معافی منگوانے کے ایک الگ ونگ قائم کیا۔ونگ کے ایک اہلکار نے مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ آپ کے پاس گاڑی بھی نہیں گھر بھی کرائے کا ہے۔بحریہ ٹاون میں دومنزلہ گھر آپ کا منتظر ہے۔گاڑی اور دوسال کا پٹرول بھی آپ کو ملے گا مگر آپ کو ڈاکٹر خان کی کردار کشی پر مبنی ایسی کتاب لکھنا ہوگی جو اسے ہیرو سے زیروبنانے کا باعث بن سکے۔کتاب تیارہے صرف مصنف کے بطور پر آپ کا نام لکھا جانا ہے۔میرے انکار پر وہ شخص اپنا سا منہ لے کر گیا“۔جبار مرزا کے اس انکشاف سے اندازہ ہورہا ہے کہ ڈاکٹر خان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایٹمی توانائی پر مغرب کی اجارہ داری کو ختم کیا تھا۔وہ اگر کسی یورپی یا مغربی ملک کے لئے یہ خدمت انجام دیتے تو ہیرو قرار پاتے مگر انہوں نے مسلمان دنیا کے ایک ملک کی خاطر یہ کام انجام دیا اور مسلمان دنیا کے لئے ایٹمی توانائی کا حصول شجر ممنوعہ تھا۔یہ جرم اس قدر بڑا تھا کہ ایک روز ڈاکٹر خان کو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کسمپرسی اور بے بسی کے عالم میں انٹرویو دینا پڑا۔ملک بنانے کے بعد دوسرا بڑا کام کرنے والے کا یہ انجام پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔اس شخص کو بھی عملی طور پر سیکورٹی رسک کلب آف پاکستان میں دھکیل کر اپنے تئیں تاریخ کو درست کیا گیا۔لیاقت علی خان پاکستان میں نہرو کی طرح جمہوری اقدار اور سول بالادستی کی علامت بن کر اُبھر سکتے تھے مگر المیہ یہ ہوا کہ سید اکبر کو بے وجہ ان پر غصہ آگیا اور اس نے کمپنی باغ کے جلسے میں گولیاں چلا دیں۔بنگال کا حسین شہید سہروردی ملک کے دونوں حصوں میں یکساں مقبول ہو رہا تھا۔یہ ملک کو جوڑے رکھنے کی صلاحیت کا حامل تھا مگر ایک روز اسے بھی کلب کی رکنیت دے کر مائنس کردیا گیا اور وہ عالم جلاوطنی میں اس جہان سے کوچ کرگئے۔سہروردی کی معتدل اور دونوں حصوں میں مقبول آواز کو نہ سننے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ایک کارکن شیخ مجیب الرحمان منظر پر اُبھرا جو سخت لہجہ ودہن کے ساتھ بات کرنے کا خوگر تھا۔پھر وہ بھی سیکورٹی رسک کلب کا رکن قرار پایا اور ایک روز اسے دیوار سے دھکیلتے دھکیلتے وہاں پہنچا دیا گیا جہاں سے واپسی ممکن نہ رہی۔فاطمہ جناح ملک میں سول بالادستی کی آخری علامت بن کر اُبھریں۔ملک کی تمام جمہوری قوتیں اورچھوٹے صوبوں کے لیڈر ہی ان کے گر د جمع نہ ہوئے بلکہ مولانا مودودی جیسی صاحب بصیرت شخصیت اور کشمیری لیڈر چوہدری غلام عباس نے آنے والے منظر نامے کو بھانپتے اور دیکھتے ہوئے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی مگر یہ لہر اُٹھنے سے پہلے ہی کچل دی گئی۔یوں سیکورٹی رسک کلب کی رکن سازی مہم جاری رہی۔ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو،میاں نوازشریف سے بڑھتے بڑھتے کہانی عمران خان تک پہنچی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور پر کہا کہ ماضی میں اتنے شد ومد کے ساتھ کسی لیڈر کو سیکورٹی رسک نہیں کہا گیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں کہانی نے اتنی طوالت نہیں پکڑی تھی۔کچھ جان سے چلے جاتے رہے کچھ غصہ ٹھنڈا ہونے کے انتظار اور امید میں دبے پاؤں منظر سے مائنس ہو کر جلاوطن ہوتے رہے۔پہلی بار ایک شخص کھڑا ہے جس سے کھیل اُلجھ چکا ہے۔لڑائی طوالت اختیار کرگئی ہے۔ پوشیدہ کردار ظاہر ہوکر سامنے آنے پر مجبور ہو چکے ہیں اسی لئے زیادہ شدومد اور تواترکے ساتھ سیکورٹی رسک قراردیناپڑ رہا ہے۔

Related Articles

Back to top button