کالمزمظفرآباد

تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع۔۔۔۔۔ قلوب و اذہان کی تربیت کا ذریعہ اور قربِ الٰہی کا وسیلہ

تحریر:رشید احمد نعیم

رائے ونڈ میں ہونے والا تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع ایک ایسا روحانی منظر پیش کرتا ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایمان، اخلاص، محبت، بھائی چارے اور تقویٰ کی حقیقی تصویر بن جاتا ہے۔ یہ اجتماع نہ صرف ایک مذہبی اجتماع ہے بلکہ ایک ایسی روحانی تربیت گاہ ہے جہاں لاکھوں مسلمان دنیاوی جھمیلوں سے دور ہو کر چند دنوں کے لیے خالصتاً اللہ کی رضا کے حصول کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہاں نہ کوئی دنیاوی نمود و نمائش ہوتی ہے نہ سیاست کی کوئی گفتگو، نہ ہی کسی فرقے یا مسلک کی تنگ نظری۔ یہاں صرف ایک ہی بات ہوتی ہے اللہ کی رضا کیسے حاصل کی جائے؟ اپنے دل کو قرآن و سنت کے نور سے کیسے منور کیا جائے؟ اور صراطِ مستقیم پر استقامت کیسے حاصل کی جائے؟۔یہ اجتماع دراصل ان تمام روحانی پیاسوں کے لیے ایک چشمہ ہے جو اپنے اندر ایمان کی تازگی اور قربِ الٰہی کا احساس پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جب لاکھوں افراد ایک ہی نیت، ایک ہی مقصد، ایک ہی دعا کے ساتھ اللہ کے حضور جھکتے ہیں تو ایک عجیب سا روحانی سکون ہر دل میں اُترتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ اجتماع دنیاوی زندگی کے شور شرابے سے ہٹ کر بندے کو اُس کے اصل مقصدِ حیات یعنی اللہ کی بندگی اور اتباعِ رسول ﷺ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔تبلیغی جماعت کا یہ اجتماع محض چند دن کا مذہبی اجتماع نہیں بلکہ یہ ایمان کی تجدید، باطن کی صفائی اور عملی زندگی میں سنت کے نفاذ کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ یہاں آنے والا ہر فرد اپنے ماضی کے گناہوں پر نادم ہو کر توبہ کے آنسو بہا کرایک نئی زندگی کی شروعات کرتا ہے۔ یہاں کوئی عالم بننے نہیں آتا بلکہ ہر شخص اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور دین کی دعوت کو سمجھنے کے لیے آتا ہے۔ یہی اِس اجتماع کا سب سے بڑا کمال ہے کہ یہ بندے کو عاجزی، انکساری اور تقویٰ کی راہوں پر گامزن کرتا ہے۔رائے ونڈ کا ماحول اِن دنوں ایک ایسی بستی کا منظر پیش کرتا ہے جس میں ذکرِ الٰہی کی گونج ہر سمت سنائی دیتی ہے۔ مسجدوں میں، خیموں میں، میدانوں میں ہر جگہ قرآن کی تلاوت، درود و سلام اور وعظ و نصیحت کی محفلیں سجتی ہیں۔ اِس اجتماع میں مختلف ممالک اور علاقوں سے آئے ہوئے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت، خلوص اور اخوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کسی کو کسی کی زبان نہیں آتی مگر دل ایک ہی پیغام سے جڑے ہوتے ہیں اللہ کی راہ میں نکلنا، اُس کے دین کی خدمت کرنا اور اپنے کردار کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا۔یہ اجتماع مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت کا درس بھی دیتا ہے۔ یہاں کوئی امیر نہیں، کوئی غریب نہیں،کوئی عربی نہیں، کوئی عجمی نہیں،سب برابر، سب اللہ کے بندے،یہی وہ مساوات ہے جو اسلام کی بنیاد ہے۔ رائے ونڈ کے اِس اجتماع میں بندہ یہ سیکھتا ہے کہ اللہ کے نزدیک برتری کا معیار مال یا نسب نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔ یہی سوچ دلوں کو نرم کرتی ہے اَنا کو مٹا دیتی ہے اور انسان کو حقیقی عبدیت کی راہ پر لے آتی ہے۔یہ اجتماع انسان کو قرآن و سنت کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ اِس کے خطابات، بیانات اور نصیحتیں دلوں کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ مبلغین قرآن و حدیث کے دلائل سے سمجھاتے ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے دنیا کی حقیقت کیا ہے اور آخرت کی تیاری کیسے کی جائے۔ اِن بیانات میں نہ کوئی فلسفیانہ پیچیدگی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دنیاوی مقصد۔ اِن کا لب و لباب صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنی زندگی کو محمد ﷺ کے طریقے پر لے آؤ، اِسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔یہی پیغام جب کسی کے دل میں گھر کر جاتا ہے تو اُس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ وہ بندہ جو کبھی دین سے دور تھا، نماز سے غافل تھا، گناہوں میں مبتلا تھا، وہی بندہ اِس اجتماع سے واپس جا کر ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔رائے ونڈ کے اجتماع کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بندے کو عمل کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں بات صرف سننے کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ہوتی ہے۔ مبلغین یہ باور کراتے ہیں کہ دین صرف مسجد یا مدرسے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں دین کا دخل ہے۔ گھر ہو، کاروبار ہو، معاشرت ہو یا سیاست ہر جگہ قرآن و سنت کی رہنمائی ضروری ہے۔ یہی عملی تربیت انسان کو ایک بہترین مسلمان اور معاشرے کو ایک بہتر اسلامی معاشرہ بنانے میں مدد دیتی ہے۔یہ اجتماع قربِ الٰہی حاصل کرنے کا بھی ایک عظیم ذریعہ ہے۔ جب بندہ چند دنوں کے لیے دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش ہو کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے تو اُس کے دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ وہ اپنے رب سے تعلق کو محسوس کرتا ہے اپنی خطاؤں پر شرمندہ ہوتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! مجھے ہدایت دے، میرے دل کو قرآن و سنت کے نور سے منور کر دے اور مجھے صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھ۔یہی کیفیت بندے کے ایمان کو تازہ کرتی ہے اور روح کو سکون عطا کرتی ہے۔رائے ونڈ کا اجتماع دراصل ایک ایسی روحانی درس گاہ ہے جہاں بندہ سیکھتا ہے کہ دین کا کام محبت، صبر اور استقامت کے ساتھ کیسے کیا جائے۔یہاں کے مبلغین کسی سے سختی یا نفرت سے نہیں پیش آتے بلکہ نرم لہجے میں محبت بھرے انداز میں دین کی بات سمجھاتے ہیں یہی انداز دلوں میں اُتر جاتا ہے کیونکہ محبت وہ دروازہ ہے جس سے ہدایت داخل ہوتی ہے۔دنیا بھر کے مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں کے لیے یہ اجتماع ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ یہاں زبان، رنگ، نسل یا قومیت کی کوئی تفریق نہیں، سب کا ایک ہی مقصد ہے اللہ کے دین کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا اور دوسروں تک پہنچانا۔ یہ اجتماع امتِ مسلمہ کی وحدت کی بہترین مثال ہے۔ آج کے اِس دور میں جب امت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے ایسے اجتماعات اُمت کو ایک بار پھر قرآن و سنت کے جھنڈے تلے جمع کرنے کا ذریعہ ہیں۔یہ اجتماع صرف رائے ونڈ تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہاں سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے قافلے دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ قافلے دین کی دعوت لے کر گھروں، گلیوں، بستیوں اور شہروں میں جاتے ہیں لوگوں کو نماز، قرآن، اخلاق اور سنت کی طرف بلاتے ہیں یوں یہ اجتماع صرف چند دنوں کی عبادت نہیں بلکہ ایک عالمی تحریک کی بنیاد ہے جو بندوں کے دلوں کو اللہ کی طرف راغب کرتی ہے۔رائے ونڈ کا یہ روحانی منظر ہر دیکھنے والے کے لیے ایمان افروز ہوتا ہے۔ لاکھوں افراد کا ایک ساتھ اللہ اکبر کہنا، اجتماعی دعا میں آنسو بہانا، راتوں کو تہجد میں کھڑے ہونا یہ سب دل کو جھنجھوڑ دینے والے مناظر ہیں اِن لمحوں میں انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اللہ کا دین زندہ ہے، ایمان زندہ ہے اور اُمت ابھی بھی خیر پر قائم ہے۔یہ اجتماع ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسلام صرف علم یا عقیدے کا نام نہیں بلکہ عمل، اخلاص اور قربانی کا نام ہے۔ یہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں نورِ ایمان پیدا ہو، ہماری زندگیوں میں سکون آئے تو ہمیں قرآن و سنت کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا، یہی وہ راستہ ہے جو صراطِ مستقیم کی طرف لے جاتا ہے یوں رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع نہ صرف ایک مذہبی تقریب ہے بلکہ ایک روحانی انقلاب کا نقط آغاز ہے۔ یہ اجتماع دلوں کو منور کرتا ہے ذہنوں کو جھنجھوڑتا ہے اور انسان کو اِس کے اصل مقصدِ حیات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ اجتماع قربِ الٰہی کا وہ ذریعہ ہے جو بندے کو دنیا سے کاٹ کر رب سے جوڑ دیتا ہے اور یہی اصل کامیابی ہے کہ بندہ اپنے رب کو پالے، اُس کی رضا حاصل کرے اور اُس کے نور سے اپنے دل و دماغ کو روشن کر لے یوں یہ اجتماع واقعی اذہان و قلوب کی تربیت کا بہترین ذریعہ، قربِ الٰہی کا وسیلہ، راہِ ہدایت کا منبع اور دلوں کو قرآن و سنت کے نور سے منور کرنے کا ایک عظیم وسیلہ ہے۔ یہ اُمت کے لیے اُمید کی کرن ہے اصلاح کی صدا ہے اور ہدایت کی وہ راہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا زینہ بن جاتی ہے۔

Related Articles

Back to top button