کالمزمظفرآباد

امریکہ بھارت دفاعی معاہدے کے بعد

عارف بہار

امریکہ اور بھارت تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں۔نائن الیون کے بعد دو نوں ملکوں نے اس تعلق کو سٹریٹجک پارٹنر شپ کی شکل دے کر ایک نئے دور کا آغاز کیا۔جب دونوں ملک اپنے رشتوں کو نیا رنگ وآہنگ عطا کر رہے تھے تو اس وقت دونوں طرف جو سب سے مضبوط تعلق قرار دیا جا رہا تھا وہ مسلم شدت پسندی کا مشترکہ شکار اور ایک ہی طاقت کے مظلوم تھا۔امریکہ نائن الیون کا نیا نیا زخم کھائے ہوئے تھا تو بھارت کے دانشور امریکیوں کو یہ باور کر ارہے تھے کہ امریکہ کا نائن الیون تو اب ہوا بھارت تو مسلم شدت پسندی کے ہاتھوں آئے روز نائن الیون سہتا چلا آرہاہے۔یوں تو بھارت اور امریکہ کے تعلقات کاروباری اوردفاعی تھے مگر انہیں نظریاتی رنگ دینے کے لئے مشترکہ ظالم کے مشترکہ مظلوم کا افسانہ تراشا گیا۔مظلومیت کے اس تعلق میں ایک تیسرا فریق بھی کھڑا کیا گیا جو اسرائیل تھا۔یوں مظلوموں کی ایک مثلث تشکیل دی گئی۔امریکہ نے اسرائیل کے بعد بھارت کو اپنا سٹریٹجک شراکت دار قرار دیا۔خودساختہ مظلوموں کی اس مثلث نے باقی سارا تعاون اسی نظریاتی بنیاد پر جاری رکھا۔جب امریکہ اور بھارت کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہو رہا تھا تو پاکستان کشکول اُٹھائے ایسے ہی دفاعی معاہدے کا مطالبہ کرتا پھر مگر امریکہ نے ایک نہ سنی۔پاکستان نے چین کی طرف لڑھک جانے کی دھمکی بھی دی مگر امریکہ ٹس سے مس نہ ہوا۔امریکہ کا مجموعی تاثر یہی رہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلق حسب ضرورت رہے گا گویاکہ ڈالر لو اور کام کرو۔جب جب امریکہ کو کام کی ضرورت پڑے گی پاکستان کی ضروریات پوری کرکے وہ کام لیا جائے گا۔اس کے بعد دونوں اگلی ضرورت کا انتظا رکرتے رہیں گے۔اس مضبوط تعلق کے پس منظر میں صاف نظر آتا تھا کہ امریکہ اور بھارت کی کشیدگی عارضی اور وقتی ہے۔امریکہ بھارت سے کچھ مطالبات منوانا چاہتا ہے جن کی تکمیل کے بعد دونوں کے تعلقات کا گراف واپس اپنی جگہ پہنچ جائے گا۔ایک طرف صدر ٹرمپ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بانس پر چڑھا رہے تھے تو دوسری طرف نریندرمودی کی بینڈ بجا رہے تھے۔یہ دونوں رویے ملکوں کے لئے نہیں شخصیات کے لئے مختص تھے۔وہ پاکستان کی بطور ریاست تعریف کررہے تھے نہ بھارت کی بطور ریاست تنقیص کررہے تھے۔دونوں جگہوں پر وہ افراد کے ساتھ دومختلف رویوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔آخر کار دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ گئی اور دونوں طرف سے دفاعی معاہدے کی باضابطہ تجدید کی گئی۔امریکہ کے وزیر خارجہ پیٹی ہیگتھ اور بھارتی وزیر خارجہ راجناتھ سنگھ نے اس دس سالہ دفاعی معاہدے کا اعلان کیا۔دونوں طرف سے کہا گیا کہ دفاعی شراکت داری کو مزید بہتر بنانے علاقائی استحکام اور ڈیٹرنس کے لئے مل جل کر کام کیا جائے گا۔راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون کا غماز ہے۔اس سے بھارت امریکہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔اس معاہدے سے دو دن پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے نوید سنادی تھی کہ بھارت روس سے تیل کی خریداری کم کر رہا ہے۔امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے کے بعداب پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ یہ اصل سوال ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نریندرمودی کی حالیہ ٹرولنگ سے ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب امریکہ بھارت کے ساتھ یونہی اسیک فاصلہ بنائے رکھے گا اوراس کی محبتوں کی ساری بارشیں اب پاکستانیوں پر برستی رہیں گی۔اسی تاثر سے مغلوب ہو کر پاکستان کے حکمرانوں نے صدر ٹرمپ کے لئے نوبل پیس پرائز کے حصول کو اپنا مقصد بنالیا۔ٹرمپ اس انعام کے کتنے مستحق تھے یہ ”جوازیت“غزہ کے کھنڈرات میں پنہاں تھی۔غزہ کی بربادی کی مہم میں خود ٹرمپ کے بقول اسرائیل نے جس قسم کا اسلحہ طلب کیا امریکہ نے فراہم کیا تھا۔اس کے باوجود پاکستان کے حکمران صدر ٹرمپ کو سیلوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نوبل پرائز کا سب سے مستحق ترین انسان سمجھتے تھے۔عین اسی ماحول میں امریکہ بھارت معاہدہ ہوا تو ہماری کیفیت کچھ یوں تھی۔
میں نے کہا بزم ِ ناز چاہئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں۔
امریکہ اور بھارت کے تعلقات کا پرنالہ واپس اپنی جگہ پر نصب ہوگیا ہے مگر پاکستان غیر ضروری طور پر امریکہ کے ساتھ نئے عہدوپیماں کر بیٹھا ہے۔امریکہ کی وہ ضروریات اور خواہشات جن کا بوجھ پاکستان برسوں سے اُٹھانے سے ہچکچا رہا تھا اب اسے چار وناچار اُٹھانا ہی ہیں۔مطالبات اور ڈومور کی یہ کہانی کسی ایک مقام پر ختم ہوتی تو اچھا تھا مگر یہ غیر مختتم کہانی ہے جو پاکستان کے علاقائی اور عالمی رول سے اس کی نظریاتی شناخت اور اس کے نام اور اسلامی آئین اور اس کی بہت سی دفعات تک پھیلتی نظر آرہی ہے۔

Related Articles

Back to top button