
11نومبر ریاست کشمیر بالخصوص پونچھ کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔ 11نومبر عظیم عسکری شخصیت جہاد آزادی 1947ء کے ہیرو کیپٹن حسین خان شہید راولاکوٹ کے نزدیک شہید گلہ تولی پیر کے مقام پر دشمن کی فوج سے لڑتے ہوے جام شہادت نوش کر گئے تھے۔11 نومبر 1961ء کو سرسید پونچھ، بابائے قوم یا معمار قوم کرنل (ر) خان محمد خان ہم سے ہمیشہ کئے لئے جدا ہو گئے تھے۔ ان دونوں شخصیات کا تاریخ کشمیر میں بڑا مقام اور عظیم خدمات ہیں۔ آج کے آرٹیکل میں کیپٹن حسین خان شہید کی عسکری خدمات پر روشنی ڈالنی ہے۔ کیپٹن حسین خان کی عسکری خدمات یکتا اور منفرد ہیں۔ریاست کے تقریباً تمام مؤرخین نے کیپٹن حسین خان شہید کی عسکری خدمات پر لکھا ہے۔ مولوی امیر عالم برادر اکبر غازی ملت سردار محمد ابراھیم خان نے اپنی کتاب تاریخ آزادی کشمیر میں بعنوان”شیردل کیپٹن حسین خان“ شہید فخر کشمیر پر یوں لکھا ہے کہ آپ 1913ء میں برٹش آرمی میں بھرتی ہوئے سال بعد پہلی عالمی جنگ شروع ہو گئی۔ آپ نے اعلیٰ جنگی صلاحیتوں کی بدولت بہادری کے جوہر دکھائے۔ 1917ء میں نائب صوبیدار 1920ء میں صوبیدار، 1939ء میں صوبیدار میجر اور 1944ء میں کیپٹن کے عہدے پر ترقی پائی۔ پہلی عالمی جنگ 1914ء سے 1919ء میں اعلیٰ عسکری خدمات اور بہادری پر وائسرائے اور گورنر جنرل ہند کی طرف سے 10روپے ماہانہ دو پشتوں تک جنگی انعام سے نوازا گیا۔ اس طرح دوسری عالمی جنگ میں ان کی غیر معمولی
صلاحیتوں اور خدمات پر جب سنگا پور میں جاپانی فوج نے انہیں اور ان کے سینئرز کو گھیرے میں لے لیا تو کیپٹن حسین خان نے ایک تو ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا دوسرا زبردست حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے دشمن کا گھیرا توڑ کر ساتھیوں کو بچ نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس پر حکومت برطانیہ نے OBI(1class)اور سردار بہادر کے اعزازات سے نوازا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب آپ ریٹائرمنٹ پر واپس آئے تو یہاں آزادی کی تحریک جاری تھی۔ آپ نے دشمن کو اپنے علاقے سے مار بھگانے کا عہد کیا اور عسکری جدوجہد شروع کر دی۔ بہترین جنگی تجربے اور حکمت عملی سے عسکری قیادت سنبھالی۔ ریٹائرمنٹ پر کل ملنے والی جمع پونجی مبلغ 40ہزار روپیہ یاد رہے 1947ء میں 40ہزار آج کے چالیس لاکھ سے زائد ویلیو تھی ساتھ ہی اھلیہ محترمہ کا سونے اور چاندی کا زیور اور ساری مالیت اثاثہ جات لگا کر مجاہدین کے لئے اسلحہ خریدا۔ اپنا سارا مال و متاع جہاد آزادی پر قربان کر دیا۔ مری غازی ملت کے بلائے اہم اجلاسوں میں شرکت کی جب مری میں وار کونسل بنی تو آپ شامل تھے نہ صرف آپ کو ممبر بنایا گیا بلکہ آپ نے جہاد آزادی کے لئے جو جنگی پلان پیش کیا وار کونسل نے اسے منظور کیا ور 8اکتوبر بیک وقت خطے کے سارے حصوں سے دشمن کے خلاف جہاد آزادی کا آغاز کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دھیرکوٹ کے جوشیلے نوجوانوں نے اس وقت اس جنگی خفیہ پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2اکتوبر کو ہی حملہ کا آغاز کر دیا جس سے دشمن چوکنا ہو گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مجاہدین کا بہت مالی و جانی نقصان ہوا۔ 3سے 6اکتوبر تھوراڑ میں 29مجاہد شہید ہو گئے۔ مشہور مؤرخ سہروردی نے اپنی کتاب ٹریجڈی ان کشمیر (Tregedy in Kashmir)جی ایچ کیو سے لکھی کتاب دی کشمیر کمپین(The Kashmir Compaign)ہسٹری آف آزادکشمیر رجمنٹ جلد اول، دوم جسٹس یوسف صراف کی کتاب کشمیر یز فائیٹ فار فریڈم صفحہ نمبر 870غلام احمد پنڈٹ کی کتاب ”کشمیر آزادی کی دہلیز پر“ اور اس طرح کی درجنوں مؤرخین کی کتب میں کیپٹن حسین خان شہید کی عسکری خدمات پر تفصیلات لکھی گئی ہیں سب کا محض ایک کالم میں احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ہسٹری آف آزادکشمیر رجمنٹ جلد دوم کے صفحات نمبر 261،278 پر تفصیلات موجود ہیں اس کتاب کے صفحہ نمبر 185پر مکمل ایک علیحدہ باب بعنوان کیپٹن حسین خان کی شخصیت لکھا گیا ہے۔ وار کونسل میں جب خطے کو سیکٹرز اور سب سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا تو راولاکوٹ سیکٹر کے کمانڈر کیپٹن حسین بنے آپ کے سیکنڈ ان کمانڈ رہاڑہ کے کیپٹن بوستان خان تھے۔ آپ نے دیگر مجاہدین کے تعاون اور راجہ سخی دلیر کوٹلی کی معاونت سے آزاد پتن پل سے جہاد آزادی کا آغاز کیا۔ دشمن پل کو جلا کر بھاگنا چاہتا تھا مگر آپ کی قیادت میں پل بچا کر دشمن کا صفایا کیا گیا۔ نقل و حمل اور رسد کے حوالے سے اس پل کی بے پناہ اہمیت تھی۔ آپ کی بہترین جنگی حکمت عملی سے دس نومبر کو راولاکوٹ مرکز اور قرب و جوار کا علاقہ فتح ہو گیا۔ دشمن کا پیچھا کرتے آپ تولی پیر کے قریب شہید گلہ کے مقام پر پہنچے تو بہادری سے لڑتے ہوئے 11نومبر 1947ء شہید ہو گئے۔ اسی دن آل انڈیا ریڈیو نے خبر نشر کی کہ آزاد باغی فوج کے کمانڈر انچیف کیپٹن حسین خان تولی پیر راولاکوٹ کے پہاڑ پر مارے گئے ہیں۔ آپ کی قیادت میں آزاد پتن سے دیوی گلی، ہجیرہ اور تولی پیر تک برق رفتاریسے علاقے فتح ہوئے۔ منگ تھوراڑ راولاکوٹ اور دیگر مقامات پر خونریز معرکے لڑے گئے کیپٹن شہید نے راولاکوٹ فتح کرنے کے لئے میرال گلہ اپنا فوجی ہیڈ کوارٹر قائم کیا اس جگہ کی دفاعی اعتبار سے خاص جغرافیائی اہمیت ہے۔ یہاں سے پوری ویلی نظر آتی ہے ایک واچ پوائنٹ ہے اس دوران اھلیہ نے مکئی کی روٹی سبزی چٹنی اور دہی بھیجا آپ نے واپس کرتے ہوئے کہا جب تک سب مجاہدین کے لئے میسر نہ ہو میں نہیں کھاؤں گا دوسرا جب تک راولاکوٹ کی دھرتی کو فتح نہیں کیا گھر کا نہ کھانا کھاؤں گا نہ گھر بچوں سے ملنے جاؤں گا۔ دھرم سالہ راولاکوٹ
پوسٹ پر گھمسان کی دست بدست جنگ لڑی گئی بہت سے مجاہد شہید ہوئے مگر دشمن کو مار بھگایا گیا بھارتی فوج کا میجر جگدیش سنگھ جو خود 9جموں کشمیر رجمنٹ کے ساتھ معرکہ راولاکوٹ میں تھا بعد میں اس نے ایک مضمون بعنوان The Heroic Battle of Rawalakoatمیں یوں لکھا کہ باغی فوج کے کمانڈر انچیف کیپٹن حسین خان ہمارے رائفل مین امراؤ ٹھاکر کی گولی سے مارے گئے۔ کیپٹن حسین خان ایک دلیر مرد مجاہد تھے مزاجی اعتبار سے سخت طبیعت تھے کرنل رام لال جو دشمن فوج کے اس علاقے کے سربراہ تھے کیپٹن شہید کو خط لکھا کہ آپ لڑائی بند کریں ہم آپ کو پونچھ سے مینڈھر کا علاقہ لکھ کر بطور جاگیر دیں گے آپ نے جواب دیا کرنل رام لال مجھے جاگیر نہیں وطن کی آزادی چاہیئے۔ مشکل ترین حالات اور بے سروسامانی میں آپ نے دشمن سے یہ خطہ آزاد کرایا آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف دشمن نے بھی کیا ہے۔ بلا مبالغہ کیپٹن حسین خان شہید کی عظیم خدمات پر انہیں ہلال کشمیر یعنی نشان حیدر اعلیٰ فوجی اعزاز ملنا چاہیئے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا نوجوان نسل سے گزارش ہے کہ قومی ہیروز کی خدمات پر انہیں اچھے الفاظ میں ایک تو یاد کریں دوسرا ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو جاری رکھا جائے۔ نظریاتی کشمکش سے نکل کر درست سمت اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کریں یاد رکھیں دشمن ہمارے اندر انتشار اور افراتفری پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنا ہم سب کی اور بالخصوس ہمارے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے۔
٭٭٭٭




