کالمز

آئینہ کشمیر!!!کشمیر پر حماقتوں اور مغالطوں کی کہانی

بھارت پانچ اگست 2019کے بعد سے مسئلہ کشمیر کو یک طرفہ طور پر ختم کرچکا ہے۔ایسا نہیں کہ بھارت نے پہلی بار مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے انکار کیا ہو۔عرصہ دراز سے بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے کسی معنی خیز عمل کا حصہ بننے سے انکار کی مستقل پالیسی کو”اٹوٹ انگ“ کی اصطلاح میں لپیٹ رکھا تھا مگر اٹوٹ انگ کی رٹ لگانے کے باوجود بھارتی حکمران”اگر مگر“ کے ساتھ کشمیر پر کسی نہ کسی سمجھوتے کے عمل میں شریک رہ کر عملی طور پر کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔نریندرمودی نے اس پالیسی کی قالین ہی اُلٹ ڈالی ہے اور اب وہ کشمیر کے مسئلے کے وجودسے ہی انکاری ہو کر پاکستان کے ساتھ کسی سفارتی سرگرمی اور مذاکرات سے گریز کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔صرف کشمیر کی متنازعہ حیثیت سے انکار ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ کشمیریوں کا الگ وجود ثقافت اور شناخت بھی اب داؤ پر لگ چکی ہے۔بھارت کے اس کوتاہ اندیشانہ اور یک طرفہ نکتہ نظر کے باوجود کشمیر نہ صرف ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے بلکہ اس کی متنازعہ حیثیت کی حقیقت بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔اس حوالے سے تحقیقی علمی اور فکری کام بھی جا ری ہے۔آزادکشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی کی تازہ تصنیف ”آئینہ کشمیر“ بھی اسی کام کا ایک تسلسل ہے۔جسٹس سید منظور حسین گیلانی کی زندگی کا ایک اہم اور ابتدائی حصہ سری نگر میں گزرا۔علی گڑھ سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کشمیر میں وکالت شروع کی۔ستر کی دہائی میں ویزے پر آزادکشمیر میں مقیم اپنے والدین اور عزیزواقارب سے ملنے آئے تو پھر یہیں کے ہو کر رہے۔عملی زندگی کے سفر میں آزادجموں وکشمیر سپریم کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس تک جا پہنچے۔کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ سیاسی مبصر اور کالم نگار کے طور پر بھی متحرک ہیں۔جسٹس گیلانی کی تازہ تصنیف مسئلہ کشمیر کے تاریخی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے حال اور مستقبل کے منظرنامے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔مصنف جب ماضی میں جھانکتے ہیں تو پاکستان کی کشمیر پالیسی پر قدم قدم پر جھول اورکمزوریاں نظر آتی ہیں جو قوت ارادی کی کمی سے پھوٹتی ہیں۔یہ رویے صرف کشمیر کی حد تک ہی غالب نہیں بلکہ پاکستان کے کارپردازان کے یہ رویے خود پاکستان کے ساتھ اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا نتیجہ اٹھہترسال بعد بھی بے سمتی اور غیر یقینی کی صورت میں نظر آتا ہے۔کتاب میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، امریکہ میں مقیم کشمیری راہنماڈاکٹر غلام نبی فائی، پیپلزپارٹی کے راہنما فرحت اللہ بابر،معروف صحافیوں مجیب الرحمان شامی،حبیب اکرم، سابق بیوروکریٹ افضل علی شگری، سابق سفیر ڈاکٹر شاہد حشمت اور آزادمنش کشمیری دانشورمرتضیٰ شبلی کے تبصرے بھی شامل ہیں۔ان میں خورشید قصوری چونکہ مسئلہ کشمیر کے ایک اہم موڑ کے واقف حال اور چشم دید گواہ ہیں اس لئے ان کے تبصرے کے اندر کئی خبریں اور انکشافات موجود ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب مشرف من موہن پیس پروسیس کے تحت دونوں ملک کشمیر پر ایک حتمی سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے کہ پاکستان میں وکلاء تحریک نے سارا منظر بدل ڈالا اور یوں یہ لمحہ جسے دونوں ملکوں کی قیادت ہاتھ میں لینے کے قریب پہنچ چکی تھی بہت دور چلا گیا اور پھرلمحہ موجود کا وہ پنچھی اتنا دور نکل گیا کہ دوبارہ ہاتھ نہ آسکا۔خورشید محمود قصوری نے اس سمجھوتے کے گیارہ نکات بیان کئے ہیں جس کو عرف عام میں مشرف کاچار نکاتی فارمولہ کہا جاتا ہے۔یہ تمام نکات اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ اس کے بعد مسئلہ کشمیر کاحتمی یا کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل محض چند گام کی دوری پر رہ جاتا ہے۔ اس پرمن وعن عمل سے کشمیر حقیقت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے میدان کی بجائے دوستی کا ایک پل بنتا ہو نظر آرہا ہے۔شاید خطے کی سیاست کو کنٹرول کرنے والی طاقتوں کو اس مرحلے پر برصغیر میں ایسا آئیڈیل ماحول درکار نہیں تھا۔خورشید قصوری کے بیان کردہ نکات میں نواں نکتہ منقسم کشمیر کی ممکنہ خدوخال کو ظاہر کر رہا تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ ایل او سی۔۔۔نقشے پر ایک خط؛بھارت کے اس موقف پر کہ سرحد تبدیل نہیں ہو سکتی پاکستان نے یہ جواب دیا کہ اس صورت میں سرحد کشمیریوں کے مابین موجود نہیں رہے گی اور یہ کہ ان کے لئے ایل او سی کے دوسری جانب سفر کرنے کی غرض سے ویز ایا پاسپورٹ ضروری نہیں ہوگا۔اس طرح عملی طور پر ایل او سی نقشے پر ایک خط کے طور پر موجودہوگی“۔ عملی طور پر معاملات خورشید قصوری کے اس بیان کردہ نکتے ہی کے تحت جاری تھے کیونکہ کشمیر کے منقسم خاندانوں کو ویزے پاسپورٹ کی پابندی سفر کی آزادی حاصل ہو چکی تھی اور کنٹرول لائن ان کے لئے حدِ متارکہ جنگ یا محض ایک لکیر تھی جس کو عبور کرنے کے لئے انہیں محض مقامی انتظامیہ کی سفری دستاویزات درکارہوتی تھیں۔اس سے یہ افسوسناک حقیقت بھی سامنے آتی ہے یہ سار اعمل اب رول بیک ہوچکا ہے۔جسٹس گیلانی نے اپنی کتاب میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مختلف ادوار میں زیر گردش تجاویز کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ کتاب میں خورشید قصور ی کے موقف کو بھارتی سفارت کار جتندر لانبا کی
کتاب”امن کی تلاش“کے اس ا قتباس سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاہدہ دستخطوں کے لئے تیار تھا لیکن دونوں ملکوں کے لیڈروں کی اقتدار سے محرومی کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہو سکا۔مودی نے برسر اقتدار آنے کے بعد اس عمل کو آگے بڑھانے کی یوں کوشش کی کہ انہوں نے 2017میں انہی جتندر لامبا کو وزیر اعظم نوازشریف کے نام ایک ذاتی خط دے کر پاکستان بھیجا اسی عرصہ کے دوران مودی کا خصوصی ایلچی اپنا جہاز لے کر نواشریف سے ملنے چلا گیا۔جس کے بعدایک ہی کام کے لئے دونمائندوں کے ملنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔جسٹس گیلانی کی کتاب میں انکشاف کیا گیا۔یہ آمدورفت بھی ایک معاہدے کا مسودہ لے کر جاری تھی۔اس معاہدے کا مسودہ نریندرمودی نے بھی دیکھا تھا۔ایس کے لانبا کے مطابق سب کچھ ختم نہیں ہوا۔امکانات موجود ہیں اصول اور معاہدے کا مسودہ بھی موجودہے جو دونوں اطراف جب محسوس کریں اس پروسیس کو بحال کر سکتے ہیں۔اس پس منظر میں جسٹس گیلانی پرامید ہیں کہ پاکستان میں ایک مستحکم نظام حکومت قائم ہوتے ہی حالات دوبارہ اسی نہج کی طرف جا سکتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ غیر مستحکم پاکستان کے ساتھ اپنے دوست بھی مطمئن نہیں دشمن کہاں ہوسکتے ہیں اس لئے پاکستان میں مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

Back to top button