کالمز

دہشتگردی کاخاتمہ کل نہیں آج

اس کائنات میں امن انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت اور ریاستوں کے وجود کی بنیاد ہے۔ امن ہی وہ قوت ہے جو قوموں کو ترقی، استحکام اور عزت بخشتا ہے۔ جب کوئی ریاست یا حکومت امن کے اصولوں سے منہ موڑ لیتی ہے، تو وہ اپنے عوام کے ساتھ ساتھ خطے کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ افسوس کہ آج افغانستان، جو خود دہائیوں سے جنگ و خونریزی کا شکار رہاہے۔افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف اٹھنے والی دہشتگردانہ کارروائیاں، نفرت انگیز ترانے اور اشتعال انگیز بیانات عالمی امن کے تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔اسلام آباد میں جی الیون کچہری کے باہر ہونے والا خودکش دھماکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشتگرد عناصر، جنہیں افغان سرزمین پر پناہ اورمدد مل رہی ہے وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔بارہ قیمتی جانوں کا ضیاع اور درجنوں زخمی ہونابڑا سانحہ ہے جس نے قوم کے دلوں کو لہو لہان کر دیا ہے۔ یہ واقعہ واضح پیغام دیتا ہے کہ دہشتگردی کسی بھی شکل میں ہو، وہ صرف تباہی لاتی ہے۔افغان ریاست کی جانب سے ایسے عناصر کی پشت پناہی بدترین اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔جو حکومت خود کو اسلامی اور انصاف پر مبنی نظام کی دعویدار کہتی ہے وہ دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو جگہ دیتی ہے تو وہ دراصل امن دشمنی کا علم اٹھا رہی ہے۔ دنیا کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔پاکستان امن چاہتا ہے پر اپنی سرزمین پر خون ریزی برداشت نہیں کرے گا۔ وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری افغان حکومت سے حساب لے اور اسے یاد دلائے کہ امن کی حفاظت ہر ریاست کی اصل ذمہ داری ہے۔
افغانستان میں پولیس اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران پڑھے گئے پاکستان مخالف ترانوں نے خطے میں ایک نئی بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ تقریب کے دوران اسلام آباد کو آگ لگانے اور لاہور میں جھنڈے گاڑنے جیسے اشتعال انگیز جملے نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی بداعتمادی کی کھلی تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔ ایسے ترانے کسی ریاستی تقریب میں پڑھا جانا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان طالبان میں کچھ حلقے نفرت اور دشمنی کا بیانیہ پروان چڑھا ر ہے ہیں۔یہ افسوسناک صورتحال اُس وقت مزید سنگین ہو گئی جب اسلام آباد کی جی الیون کچہری کے باہر ایک ہولناک خودکش دھماکہ ہوا، جس میں بارہ پاکستانی شہید اور ستائیس زخمی ہوئے۔ دھماکے کی جگہ سے مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی برآمد ہوا، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گردی کا یہ نیٹ ورک پھر سے سرگرم ہو چکا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری بظاہر افغان سرزمین سے چلنے والی بھارتی اسپانسرڈ پراکسی تنظیم ”فتنہ الخوارج“ پرعائدہوتی ہے، جس نے ماضی میں بھی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی۔یہ واقعہ محض ایک دہشت گردی کا سانحہ نہیں،بلکہ پاکستان کے صبر اور امن پسندی کا کھلا امتحان ہے۔ قوم آج ایک بار پھر غم، دکھ اور تکلیف کی شدت میں مبتلا ہے۔ شہیدوں کے لواحقین کے دکھ کی شدت بیان سے باہر ہے، ساتھ ہی پوری قوم یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ آخر کب تک بیرونی سرزمینیں پاکستان کے امن و استحکام کو روندتی رہیں گی؟افغان طالبان اس وقت اقتدار میں ہیں، لہٰذا ان پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ امن کی باتیں صرف دعووں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ثابت ہوتی ہیں۔ان کے زیرِ اثر اداروں میں پاکستان مخالف تقاریر اور ترانے گونج رہے ہیں، تو یہ امن کا نہیں، دشمنی کا پیغام ہے۔ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ اس طرزِ عمل سے خطے میں دہشت گردی کے امکانات بڑھ رہے ہیں، اور کسی بھی وقت بڑے تصادم کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کی مدد کی، لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، ان کے ساتھ انسانی اور اسلامی رشتوں کو نبھایا۔ افسوس کہ جواب میں نفرت، اشتعال اور دھمکیوں اورخودکش دھماکوں کا تحفہ ملا۔ حالیہ افغان وزیر نوراللہ نوری کا بیان، جس میں پنجاب اور سندھ پر حملوں کی بات کی گئی، اور اب طالبان سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے اسلام آباد پر خودکش دھماکوں کی دھمکیاں، یہ سب اسی خطرناک سوچ کی عکاس ہیں اوراسلام آباد میں خودکش دھماکہ اس خطرناک سوچ کا عملی نتیجہ ہے۔ یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان کے خلاف جاری پراکسی جنگ اب الفاظ سے نکل کر دوبارہ بارود میں بدل رہی ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو مزید چوکس اور مضبوط ہونا ہوگا۔ خفیہ اداروں کی فعالیت، سرحدی نگرانی، اور شہری مقامات کی سیکیورٹی کے لیے مضبوط حکمتِ عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔تاہم صرف بندوق کے زور پر یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔پاکستان کو سفارتی محاذ پر بھی مزیدسرگرم ہونا چاہیے،دنیاکوبتاناچاہیے کہ دہشتگردی کاخاتمہ کل نہیں آج کرناہوگا۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور عالمی برادری کے سامنے افغانستان سے آنے والی دھمکیوں، نفرت انگیز بیانات اور دہشت گردی کے شواہد رکھے جائیں۔عالمی برادری کو باور کرانا ہوگا کہ دہشت گردی کی یہ نئی لہر صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف پہلے بھی بے مثال قربانیاں دی ہیں، اور آج بھی متحد ہے۔ ہمیں اپنے شہداء کے خون سے یہ عہد دہرانا ہوگا کہ ہم نہ جھکیں گے، نہ رکیں گے، نہ خاموش رہیں گے۔ دشمن چاہے سرحد پار سے ہو یا اندرونی، ہم اسے اپنے اتحاد، ایمان اور عزم سے شکست دیں گے۔یہ وقت قومی اتفاق، حکومتی سنجیدگی اور عوامی یکجہتی کا ہے۔ہر پاکستانی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کسی فرد،جماعت یاادارے کے خلاف نہیں بلکہ ہمارے وجود،پاکستان، پر وار ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ امن کی خواہش تب ہی پوری ہوگی جب دشمنی کے ہر بیج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ہمارے شہداء کا خون پکار رہا ہے: امن قائم رکھنا ہے تو کمزوری نہیں،بلکہ مضبوطی اور عدل کے ساتھ۔ نفرت کے مقابلے میں اتحاد، اور دہشت کے مقابلے میں حوصلہ ہی ہماری اصل طاقت ہے۔

Related Articles

Back to top button