کالمزمظفرآباد

وویمن اینٹی ہراسمنٹ اینڈ چائلڈ پروٹیکشن سنٹر مظفرآباد کا قیام۔

تحریر۔۔۔محمد شبیر اعوان

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خواتین اور بچے محفوظ نہ ہوں۔ دنیا بھر میں یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معاشرتی ترقی کے لیے خواتین اور بچوں کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آزاد کشمیر میں بھی خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے اب ایک تاریخی اقدام اُٹھایا گیا ہے۔ مظفرآباد میں خواتین اور بچوں کے مسائل کے حل کے لیے خواتین اینٹی ہراسمنٹ اینڈ چائلڈ پروٹیکشن سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا باقاعدہ افتتاح انسپکٹر جنرل پولیس آزاد کشمیر، رانا عبدالجبار نے 13 نومبر 2025 کو کیا۔یہ اقدام ضلع پولیس مظفرآباد کی جانب سے خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اہم اور مثالی اقدامات میں شمار ہوتا ہے۔ اس مرکز کے قیام کا مقصد متاثرہ خواتین اور بچوں کو ایک محفوظ، بااعتماد اور مؤثر پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جہاں وہ بلا خوف و خطر اپنی شکایات درج کروا سکیں اور قانونی، سماجی اور نفسیاتی معاونت حاصل کر سکیں۔سنٹر کی افتتاحی تقریب میں مظفرآباد ڈویژن کے کمشنر، ڈپٹی انسپکٹر جنرل صاحبان پولیس، ڈپٹی کمشنر مظفرآباد، ہیڈکوارٹرز مظفرآباد میں موجود پولیس افسران، انتظامی افسران، چائلڈ پروٹیکشن اور سوشل ویلفیئر کے نمائندگان، محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کے افسران، وکلاء، صحافی حضرات، تاجران، NGOs اور سول سوسائٹی کے نمائندگان سمیت دارالحکومت کے سینئر صحافی سید آفاق حسین شاہ، طارق نقاش، واجد خان، شاید قیوم، سردار عدنان، چوہدری امتیاز اور راقم اور دیگر شریک ہولڈرز بھی شریک تھے جبکہ سینٹرل بار، ہائی کورٹ بار کے صدور اور سپریم کورٹ بار کے عہدیداران نے شرکت کی، جنہوں نے اس مرکز کے قیام کی اہمیت اور معاشرتی اثرات پر روشنی ڈالی۔ریڈ کریسنٹ سوسائٹی سٹیٹ برانچ کی سیکرٹری اور سابق ایم ایل اے محترمہ گلزار فاطمہ، اور ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر مختار احمد اعوان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کے مسائل صرف قانون کا معاملہ نہیں بلکہ سماجی حقیقت ہیں، اور متاثرہ افراد کو ایسا ماحول فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جہاں وہ بلا خوف اپنی شکایات درج کرا سکیں۔سیٹر کے افتتاح کے بعد ایس ایس پی آفس مظفرآباد کے کمیٹی روم میں منعقدہ سیمینار طرز کی تقریب کے دورانایس ایس پی مظفرآباد سید ریاض حیدر بخار نے انسپیکٹر جنرل پولیس اور شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں خواتین کے خلاف جرائم کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جن میں گھریلو تشدد، بلیک میلنگ، عصمت دری، قتل، تیزاب کے حملے، اغواء اور ہراسمنٹ کے مقدمات شامل ہیں۔ اس عرصے میں خواتین سے متعلق درج ہونے والے جرائم کے مقدمات کی تعداد 659 جبکہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات کی تعداد 55 رہی۔ان جرائم میں اضافے کے پیچھے سماجی، اقتصادی اور قانونی وجوہات کارفرما ہیں۔ خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے علیحدہ پولیس سیٹ اپ نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ اکثر خواتین خوف اور سماجی دباؤ کی وجہ سے تھانوں میں اپنی شکایات درج نہیں کرا پاتیں۔انسپکٹر جنرل پولیس آزاد کشمیر، رانا عبدالجبار نے اس مرکز کے قیام کی بابت اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی عزت اور تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ڈی آئی جی ریجن اور ایس ایس پی مظفرآباد کی محنت کو سراہتے ہوئے کہا کہ جلد مظفرآباد میں خواتین کے لیے ویمن پولیس اسٹیشن قائم کیا جائے گا تاکہ خواتین کے قانونی مسائل کے حل میں مزید آسانی اور اعتماد فراہم کیا جا سکے۔آئی جی نے ایس ایس پی مظفرآباد کو ہدایت دی کہ خواتین کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے دو خواتین ماہر نفسیات کی آسامیوں کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ صرف قانونی معاونت کافی نہیں بلکہ متاثرہ خواتین اور بچوں کی نفسیاتی بحالی، کونسلنگ اور سماجی معاونت بھی اتنی ہی اہم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کا یہ مرکز خواتین اور بچوں کے لیے ایک محفوظ پلیٹ فارم فراہم کرے گا جہاں وہ بلا خوف اپنی شکایات درج کرا سکیں اور فوری قانونی اور سماجی مدد حاصل کر سکیں، خواتین اینٹی ہراسمنٹ اینڈ چائلڈ پروٹیکشن سنٹر میں تجربہ کار لیڈی پولیس انسپکٹر سمیت گی میل سٹاف تعینات کیا گیا ہے تاکہ خواتین سے متعلقہ معاملات کی سماعت تفتیش میں آسانی ہو۔ مرکز کا مقصد صرف قانونی کاروائی تک محدود نہیں بلکہ متاثرہ خواتین کو نفسیاتی معاونت، کونسلنگ، قانونی مشاورت اور سماجی سپورٹ فراہم کرنا ہے۔یہ مرکز خواتین کو گھریلو تشدد، ہراسمنٹ، بلیک میلنگ اور عصمت دری جیسے مسائل سے نبردآزما ہونے میں مدد فراہم کرے گا۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ زیادتی یا دیگر مسائل کے شکار بچوں کے لیے بھی یہ مرکز ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرے گا۔معاشرتی اور قانونی اہمیت کے پیش نظریہ مرکز اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرے کی ترقی خواتین اور بچوں کے تحفظ کے بغیر ناممکن ہے۔ اس مرکز کے قیام سے نہ صرف متاثرہ خواتین اور بچوں کو فوری مدد فراہم ہوگی بلکہ معاشرتی شعور بھی بڑھے گا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، سول سوسائٹی اور میڈیا کی شراکت سے یہ مرکز مزید مضبوط ہوگا۔تقریب میں شریک غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی، وکلاء اور میڈیا کے نمائندگان نے مرکز کے قیام کو تاریخی اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مرکز کی بدولت خواتین اور بچوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مربوط، فعال اور پائیدار نظام وجود میں آئے گا۔محترمہ گلزار فاطمہ نے کہا کہ متاثرہ خواتین اور بچوں کے لیے یہ مرکز امید کا نیا چراغ ہے، اور حکومت و پولیس کی یہ کاوش معاشرتی انصاف کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی۔مختار احمد اعوان نے کہا کہ خواتین اور بچوں کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، اور یہ مرکز ان تمام ضروریات کو پورا کرے گا۔میڈیا اور قانونی برادری کی شمولیتافتتاحی تقریب میں شریک سینئر صحافیوں سید آفاق شاہ، طارق نقاش،واجد خان اور دیگر نے اس مرکز کے قیام کو مثبت اور معاشرتی لحاظ سے اہم اقدام قرار دیا۔ اور مثبت تجاویز بھی دیں،قانونی ماہرین نے کہا کہ خواتین کے مقدمات میں قانونی پیچیدگیوں اور سماجی دباؤ کے باعث انصاف میں مشکلات پیش آتی ہیں، لیکن اس مرکز کے قیام سے خواتین کی رسائی آسان ہوگی اور انہیں انصاف کے حصول کا اعتماد ملے گا۔شرکاء اور سول سوسائیٹی نے آئی جی پولیس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہانسپکٹر جنرل پولیس رانا عبدالجبار کی قیادت اور وژن نے اس مرکز کو ممکن بنایا۔ ان کی سنجیدہ سوچ، پیشہ ورانہ بصیرت اور عوامی مسائل سے آگہی نے نہ صرف پولیس فورس بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو ایک نئے عزم کے ساتھ جوڑا ہے۔ شرکاء نے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ان کی یہ کاوش آنے والی نسلوں کے لیے مثال قائم کرے گی۔خواتین اینٹی ہراسمنٹ اینڈ چائلڈ پروٹیکشن سنٹر صرف ایک عمارت یا دفتر نہیں بلکہ معاشرتی ترقی، انصاف اور تحفظ کی علامت ہے۔ یہ مرکز متاثرہ خواتین اور بچوں کے لیے ایک محفوظ پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جہاں وہ بلا خوف اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔ یہ اقدام معاشرے میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے ایک نئے دور کی شروعات ہے، اور آنے والے وقت میں اس کے مثبت اثرات پورے آزاد کشمیر میں محسوس کیے جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سینٹر کے قیام کے مقاصد کا حصول ممکن بنایا جائے اس میں جینون ایشوز ایڈریس کیے جائیں محض ذاتی نجی گھریلو اور خاندانی ایشوز اور ذاتی آنا اور ایک دوسرے کو زیر کرنے سے گریز کیا جائے، شکایات کے ساتھ ٹھوس شواہد، گواہان کی گواہی وغیرہ لازمی ہونی چائیے تاکہ کسی بے قصور شہری کی عزت و تکریم بھی متاثر نہ ہو،

Related Articles

Back to top button