پاکستان کیلئے مضبوط دفاعی تیاری اور سفارتی حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے،سردار مسعود
اسلام آباد (بیورو رپورٹ) پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ، چین اور اقوامِ متحدہ، اور سابق صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے اسلام آباد کے ایک معروف پالیسی تھنک ٹینک میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں سے بیک وقت سیکیورٹی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، جس کے لیے مضبوط دفاعی تیاری اور ہمہ جہتی سفارتی حکمت عملی ناگزیر ہے۔ مسعود خان نے کہا کہ مشرقی محاذ پر بھارت کی جانب سے عسکری نقل و حرکت میں اضافہ، سرحدی محاذوں پر جارحانہ طرزِ عمل اور حالیہ دنوں میں بعض واقعات کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں، خطے میں کشیدگی بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان کے مطابق نئی دہلی میں پیش آنے والے کچھ واقعات کے پس منظر اور انداز نے انہیں جھوٹے پراپیگنڈا یا ممکنہ فالس فلیگ نوعیت کا رنگ دیا ہے، جس کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے۔ مغربی سرحد کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے افغان طالبان انتظامیہ کو سرزمینِ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سدباب کے لیے ہر ممکن سفارتی راستہ اختیار کیا ہے۔ دوطرفہ مذاکرات، ترکی اور قطر کے ذریعے ثالثی، اور چین کی معاونت سے علاقائی تعاون کا فریم ورک سمیت سب مراحل طے کیے گئے، تاہم پاکستان کے شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جو افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں اور بیرونی سرپرستی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ سردار مسعود خان کے مطابق پاکستان کی پالیسی اصولی طور پر سفارتکاری پر مبنی ہے، تاہم بین الاقوامی قانون کے تحت ملک پر حملے جب بیرونِ ملک سے ہوں تو دفاعی ردِعمل جائز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہریوں اور فورسز کو نشانہ بنانے والی کارروائیاں کھلی جارحیت کے مترادف ہیں اور پاکستان مناسب وقت پر مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ سفارتی کوششیں جاری رہیں گی۔ انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ بھارت، خطے میں اپنی سفارتی اور عسکری ناکامیوں کے بعد پاکستان کے بڑھتے ہوئے علاقائی کردار کو روکنے کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ان کے بقول نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں مزید عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ مسعود خان نے کہا کہ چین، ترکی، قطر، سعودی عرب اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اہم ممالک پاکستان کے مؤقف سے آگاہ ہیں اور خطے میں امن و استحکام کے لیے افغانستان کے ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے خواہاں ہیں۔ ان کے مطابق عالمی برادری صورتحال کو سمجھتی ہے، مگر انسانی جانوں اور معیشت کا اصل بوجھ پاکستان ہی اٹھا رہا ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ علاقائی مشکلات کے باوجود پاکستان کے لیے معاشی اور سفارتی امکانات کھلے ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان رابطوں میں پاکستان کا کردار، غیر ملکی سرمایہ کاری کے نئے امکانات اور قدرتی و انسانی وسائل کی فراوانی پاکستان کو عالمی سطح پر اہم بنا رہے ہیں۔ یہی عوامل مخالف قوتوں کے لیے پریشانی اور عالمی شراکت داروں کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ خطاب کے اختتام پر انہوں نے قومی بیداری، دفاعی تیاری اور مسلسل سفارتی پیش رفت کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے، پالیسی ساز اور عوام تمام تر چیلنجز کا ادراک رکھتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے متحد رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر سطح پر تیار، مضبوط اور اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے پُرعزم ہے، جبکہ خطے کے امن اور خوش حالی کے لیے مثبت راستے بھی تلاش کرتا رہے گا۔




