کالمز

میاں وحید مبارک ہو سینئر موسٹ وزارت کی

قارئین! میاں عبدالوحید وہ درویش منش سیاستدان ہے جب ہم جامعہ کشمیر میں پڑھتے تھے تو روز شام کو شہر میں ایک ہوٹل جسے گیلانی ہوٹل کہا جاتا تھا،ہماری ہر روز محفل جماکرتی تھی۔میاں صاحب بنیادی بطور پرشریف النفس اور با اخلاق انسان ہیں۔مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ میاں وحید اگر آزاد کشمیر میں کسی وزارت کے خواہشمند ہیں تو وہ وزارت تعلیم ہے۔ لیکن اب ان کی ذمہ داریاں بڑھ چکی ہیں اس لئے انہیں وزارتیں بھی تگڑی ملتی ہیں۔ ان کے خیال میں جب تک ریاست کا تعلیمی ڈھانچہ درست نہیں ہو گا تو بنیادی خرابیاں جنم لیتی رہیں گی۔تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے،کسی کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔لیکن بدقسمتی سے ریاست میں کئی بچے بے گار اور گلی کوچوں میں سہولیات کے فقدان کے باعث آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں۔کئی ورکشاپس پر کام کرنے والے بچے اور کئی کوڑا کرکٹ جمع کرنے والے نونہال یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا تعلیم حاصل کرنا انن کا حق نہیں۔دنیا کے تمام مذاہب اور بالخصوص اسلام نے تعلیم کو ہر بچے کا پیدائشی حق قرار دیا ہے۔غریب بچوں کے والدین ایوان اقتدار میں بیٹھے وزراء اور مشیروں سے یہ سوال رو رو کر پوچھ رہے ہیں کہ ان کے بچوں کا کیا قصور ہے جو وہ مادر علمی کی آغوش سے محروم ہیں۔
ہمارے حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں انہیں کیا پتہ کہ ایک مزدور یا کسان کا بچہ سکول نہ جا کر معاشرے کے لئے کتنا بڑا بوجھ بن رہا ہے۔ اگر ان اہل اختیار کے بچے بھی سکول جانے کی سہولت سے محروم ہوتے تو ان پر کیا گزرتی۔کیا کسی وزیر،مشیر یا بیورو کریٹ کا بچہ بھی تعلیم حاصل نہ کرنے پر مجبور ہوا ہے، ایسا اگر نہیں تو ان ارباب اختیار کو مفلس کے بچوں سے کیا لینا دینا۔
ہر معاشرے میں بچے کی اہمیت جنت کے پھول یا قوم کے معمار کی ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں کم سن بچے یا تو ہوٹلوں پر برتن دھوتے نظر آتے ہیں یا کسی سوزوکی یا گاڑی کے ساتھ کنڈیکٹری کرتے پائے جاتے ہیں۔ اکثر بچوں سے بیگار لی جاتی ہے جو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔
یہ ایک بین الاقوامی اصول ہے کہ بچہ چاہے غریب کا ہو یا امیر کا،سرمایہ دار کا ہو یا ہاری کا،ذہین ہو یا نالائق،دشمن کا ہو یا دوست کا بچہ محض معصوم ہوتا ہے اور فطری طور پر اسے وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو کہ ایک انسان کا حق ہے۔بچے کی تعلیم و تربیت اس کی صلاحیتیں اجاگر کرتی ہیں۔اگر ایک بچہ دکان پر بیٹھتا ہے یا گاڑی کے ساتھ کام کرتا ہے تو اس کی تربیت ظاہر ہے کہ اسی معاشرے کے مطابق ہو گی۔جب بچہ سکول جائے گا تب ہی وہ سیکھ کر معاشرے کا بہتر فرد بن سکے گا۔ سکول جائے بغیر بچہ کیسے ڈاکٹر،انجنئر،پروفیسر یا استاد بن سکتا ہے۔جب بچہ سکول نہیں جائے گا تو وہ ان پڑھ رہے گا اور معاشرتی مسائل پیدا کرے گا اس میں بچے کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس معاشرے کا قصور ہے جو بچے کی تربیت نہیں کر پا رہا۔
ایک تخمینے کے مطابق آزاد کشمیر میں 65ہزار بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔آزاد کشمیر کی شرح خواندگی بد قسمتی سے چوتھے نمبر پر آ چکی ہے اور روزانہ تقریبا 3600اساتذہ کرام بلا وجہ سکول نہیں جاتے، ان حالات میں تعلیمی معیار کیسے اوپر اٹھے گا۔آزاد کشمیر میں فوری طور پر تعلیمی ایمر جنسی کا نفاذ کرنا چاہئے ورنہ یہاں کا معیار تعلیم گرتا ہی جائے گا۔ایک رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر میں 41فی صد بچے روزانہ سکول نہیں جاتے،جو کہ ایک خطرناک شرح ہے۔
مفت اور معیاری تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے آزاد کشمیر کی شرح خواندگی پہلے نمبر سے گر کر چوتھے نمبر پر آگئی ہے اور اگر صورتحال یہی رہی تو آزاد کشمیر میں مزید تعلیمی گراوٹ کا خدشہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25Aکے تحت حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کے بچوں کو مفت تعلیم کی
سہولیات فراہم کرے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر تعلیم آئین کے اس آرٹیکل پر عملی اقدامات کریں تا کہ مفلس کے بچے بھی زیورتعلیم سے آراستہ ہو سکیں۔اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ تعلیم میں جو ٹھیکیداری کا نظام قائم ہے اس کا بھی خاتمہ ہو تا کہ بچے پڑھ لکھ کے قوم کے معمار بن سکیں۔ایک بچے کے ہاتھ میں کتاب اور قلم ہی اچھے لگتے ہیں،کام کرنے کے اوزار نہیں۔
معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس میں پڑھے لکھے افراد نہیں ہوں گے۔میاں عبد الوحید جب گزشتہ دور میں وزیر تعلیم تھے تو انہوں نے تعلیمی میدان میں تاریخی انقلاب برپا کیا ہے۔ انہوں نے خود جا کر سکولوں کے معائنے کئے ہیں اور نہ پڑھانے والے اساتذہ اور دی ای اوز کو سر زنش بھی کی ہے۔ میاں وحید ایک لائق انسان ہیں وہ بچے کی نفسیات سے آگاہ ہیں اور اسی طرز پر آزاد کشمیر میں تعلیمی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے بلا متیاز غیرے سب سکولوں کے اساتذہ اور اعلیٰ افسران کو تعلیم کے معاملے میں سختی سے پابند کر رکھا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ میاں عبدالوحید ایڈوکیٹ اب سینئر وزیر بن کرنان سکول گوئنگ بچوں اور کام چور اساتذہ کا مواخذہ کریں گے اور آزاد کشمیر کی شرح خواندگی کو ایک مرتبہ پھر اوپر لے جائیں گے۔میاں عبدالوحید کی کاوشوں سے کئی سکول اپ گریڈ ہوئے اور کئی نئے سکولز منظور ہوئے اس کے علاوہ کئی اساتذہ کی آسامیاں بھی createکی گئیں۔ بلا شبہ میاں عبدالوحید نے اپنی قابلیت،ذہانت اور منصوبہ بندی کی بدولت آزاد کشمیر کی تاریخ میں اپنا مقام پیدا کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس ملک کو میاں عبدالوحید صاحب جیسے مزید لائق اور ذہین وزراء عطا کرے۔ اللہ میاں صاحب کا حامی و ناصر ہو۔
چوہدری انوارالحق کے دور حکومت میں میاں وحید وزیر قانون کے اہم عہدے پر فائز رہے اور کما حقہ اس وزاعرت کا حق ادا کیا۔یقیننا میاں عبدالوحید ایڈوکیٹ ریاست کے ایک کامیاب سیاستدان ہیں اور انشاء اللہ گزشتہ کی طرح اس دفعہ بھی وہ عوامی خواہشات کیے مطابق سینئر منسٹر کا حق ادا کریں گے۔ ہماری نیک خواہشات میاں عبدالوحید کے ساتھ ہیں۔

Related Articles

Back to top button