کالمزمظفرآباد

مشکل میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے

راجہ شہزاد معظم

اوپر سے کٹ جانا،دوست و احباب کی ہمدردی( جسے آپ رحم کہہ سکتے ہیں)اور قریبی اور عزیز رشتہ داروں کا ایک ٹانگ کے بغیر انسان کے ساتھ رویہ بڑا ہی کرب ناک اور دکھ دہ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے جو کچھ میرے مقدر میں لکھ دیا تھا وہ پچھلے سال 16نومبر کی ایک بھیانک شام کو پیش آیا۔ جب راقم ارجہ باغ سے واپسی پر بائیک کی منگ بجری پل پر ٹکر سے بائیں ٹانگ ہمیشہ کے لئے کاٹ دی گئی۔یوں بھی مجھے اس بات کا ذرا بھی پچھتاوا نہیں کہ میں مکمل طور پر معذور ہو گیا اور مصنوعی ٹانگ کے سہارے اپنی زندگی کے بقیہ ایام انتہائی خوش دلی سے کاٹ رہا ہوں۔ کیونکہ جو بات رب کی طرف سے مقدر بن جائے اسے ہزار حیلوں سے بھی ٹالا نہیں جا سکتا۔
اس اداریے کا مقصد خاص طور پر ان خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی اور ہمت بڑھانا ہے جو پیدائشی طور پر معذور ہیں یا کسی حادثے کی وجہ سے ان کے اعضاء کٹ گئے۔ذاتی طور پر راقم انتہائی صبر و تحمل اور بردبار انسان ہے،لیکن جب اپنے خاص دوست و احباب اور رشتہ دار مجھے رحم کی نظروں سے دیکھتے ہیں تو دل ٹوٹ سا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں کہ کسی کا بازو،ٹانگ،پاؤں یا کوئی اور عضو damageہو جائے تو اس پر واویلا شروع کر دیا جائے۔
صاحبو! راقم ایک بہترین درجے کا سوشل انسان تھا۔ گیمز میں کرکٹ،والی بال اور بیڈ منٹن پسندیدہ ترین تھی۔لوگوں کے بقول میں ایک بہترین مقرر بھی ہوں۔شعبے کے اعتبار سے پیشہ پیغمبری یعنی سینئر بیالوجی ٹیچر ہوں۔لیکن اس حادثے نے میری گزشتہ ساری زندگی کی سرگزشت چند لمحوں میں سامنے رکھ دی۔آپ شائد سوچتے ہوں گے کہ میں لوگوں کے رویے اور احساس کمتری کی وجہ سے یہ سب قلمبند کر رہاہوں۔ لیکن واللہ ایسی کوئی بات نہیں میں اپنی من موجوں میں بالکل مطمئن ہوں۔
چند ایک حساس معاملات اداریے کے توسط سے ارباب اختیار تک پہنچانا چاہوں گا۔ میری ٹانگ گھٹنے کے اوپر سے کٹی ہے۔ کسی صاحب حیثیت کو یہ خیال نہیں آیا کہ یہ شخص باغ سے روزانہ 17کلو میٹر یک طرفہ فاصلہ طے کر کہ انٹر کالج ملوٹ پڑھانے جاتا ہے۔ حالانکہ انسانی ہمدردی کے تحت راقم کا تبادلہ پائلٹ ہائی سکول باغ میں کیا جانا چاہئے تھا۔ لیکن سب ارباب اختیار جن میں اکثر میرے قریبی ساتھی بھی ہیں کسی نے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا کہ انٹر کالج ملوٹ تک 17کلو میٹر کا سفر کیسے کرتے ہو۔ چلیں اللہ ان احباب کو بھی خوش و خرم رکھے جو مجھے اس حالت میں بھی اتنے دور سفر کرنے سے واقف بھی ہیں اور اگر چاہیں تو تبادلہ بھی کروا سکتے ہیں۔ لیکن میرا پھر بھی ان سے کوئی شکوہ نہیں۔
آپ سچ رہے ہوں گے کہ میں اس اداریے میں اپنا رونا لے کر بیٹھ گیا ہوں،حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ،میں ان سب مخصوص افراد کی ترجمانی کر رہا ہوں جو کہ زندگی کو اس مشکل انداز میں گزار رہے ہیں۔چلیں ذکر چل نکلا تو میں اپنی مسز کی بات بھی کرتا چلوں کہ گزشتہ 8سالوں سے وہ تمروٹہ پیل جو کہ باغ سے قریبا 36کلومیٹر دور ہے تعینات ہے۔ ایک گھر چلانے والی خاتون اور جس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوں وہ اتنی مسافت طے کر کہ بچوں کو کیا پڑھا سکے گی۔
صاحبو! میرا تعلق چونکہ غربی باغ سے ہے اس لئے میرا گھرانہ تو راجہ سجاد ایڈوکیٹ اور راجہ فیصل آزاد سے متعلقہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں ایم ایل اے غربی باغ سردار عتیق احمد خان کو بارہا باور کرا چکا ہوں کہ میرا اور میری مسز کا تبادلہ کروائیں۔ اس کے علاوہ میرے گاؤں والے مکان میں بلاکس کی دیواریں لگی ہوئی ہیں ،لنٹر ڈالنا ہے اس سلسلے میں بھی با رہا سردار عتیق، میجر نصراللہ اور تبارک علی کی منتیں کر چکا ہوں کہ میرا ایچ بی اے کروا دیں تا کہ میں اپنے بچوں اور فیملی کے ساتھ چھت تلے زندگی گزار سکوں لیکن حرام ہے کسی نے ایک دفعہ بھی اس معاملے میں کوشش کی ہو۔ اب میرے مکان کے بلاکس رفتہ رفتہ گھس رہے ہیں اور سریا زنگ آلود ہو رہا ہے۔
بات یہیں تک محدود نہیں موجودہ وزیر جنگلات سردار جاوید ایوب سے میرے بھائیوں کی طرح تعلقات ہیں۔وزیر صحت بازل نقوی میرے کالج کے بہترین دوست ہیں۔سینئر موسٹ منسٹر میاں عبدالوحید صاحب میرے محسن ہیں۔وزیر اعظم فیصل ممتاز راٹھور سے میرے ذاتی تعلقات ہیں۔ لیکن چونکہ اب میں لنگڑا ہو گیا ہوں اس لئے ان سب احباب کی نظروں میں میری وقعت دو پیسے کی ہے۔ لیکن اداریے کے توسط سے دلوں کے حکمران راجہ ممتاز راٹھور کے وزیر اعظم بیٹے،وزیر جنگلات،سینئر منسٹر، ایم ایل اے غربی باغ سے گزارش ہے کہ بمہربانی میرا تبادلہ پائلٹ ہائی سکول باغ کروائیں اور مجھے ایچ بی اے کے ساتھ ساتھ سپیشل کنوینس الاؤنس بھی دلوائیں تا کہ میری مشکل ترین زندگی میں کچھ آسانیاں آ جائیں۔ ویسے آپ بڑے لوگ ہیں یہ کام نہ بھی کریں تو کون سا قانون آپ کو روک سکتا ہے۔ باغ سے میرے ساتھی وزیر سردار ضیاء القمر صاحب بھی میری مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو جناب کی مہربانی ہو گی۔ ورنہ میں لنگڑا تو ہوں ہی کچھ عرصے کے بعد بغیر چھت اور قریبی سٹیشن پر تبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے مر جاؤں گا۔ اس وقت میری آپ سے درخواست ہے کہ میرے جنازے میں نہ آنا۔
اگر میرے علاج معالجے کے پیسے نہیں مل سکتے،سپیشل کنوینس الاؤنس نہیں مل سکتا،تبادلہ نہیں ہو سکتا اور مکان کی تعمیر کے لئے ایچ بی اے نہیں مل سکتا تو پھر میرے مردہ جسم پر آپ احباب کی ہمدردیوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں، اگرآپ احباب کے دلوں میں ذرا سا بھی خوف خد ا ہے تو میرے علاج کا بل،تبادلہ،ایچ بی اے اورذہنی حوصلہ اگزائی فرمایئے ۔ مجھے آپ سے ذاتی کوئی چیز نہیں چاہئے۔

Related Articles

Back to top button