
قارئین کرام! گڑھی دوپٹا ایک تاریخی، مرکزی، قابل دید کثیر آبادی اور چار انتخابی حلقوں کا سنگم ہے۔ دارالحکومت کا لوڈ کم کر سکتا ہے۔ مظفرآباد شہر سے محض چند کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اسی روٹ پر سیٹلائٹ ٹاؤن لنگرپورہ، ٹھوٹھا اور مہاجر کیمپ بھی ہے۔ مگر شومئی قسمت ایک نہیں چار قدآور سینیئر سیاستدان /ممبران اسمبلی کی نظریں اس کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ کوئی اس طرح توجہ نہیں دیتا۔ کوئی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ شاید ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ کافی عرصہ قبل بھی اس جانب توجہ دلانے کے لیے لکھا تھا۔ کہ حلقہ نمبر 2 میں گڑھی دوپٹا شامل ہے جس کا متحرک جواں سال نمائندہ جناب بازل نقوی ہے حلقہ نمبر 4 کی آبادی کا تمام تر کاروباری و تعلیمی لوڈ اسی قصبے پر ہے جس کا نمائندہ جناب چوہدری رشید ہے کومی کوٹ اور ملحقہ علاقہ حلقہ نمبر 5 کا حصہ گڑھی دوپٹا سے ملتا ہے۔ جس کا نمائندہ جناب لطیف اکبر ہے۔ کنینا سے آگے حلقہ نمبر 6 کا علاقہ گڑھی دوپٹا سے ملتا ہے۔ جس کا نمائندہ جناب راجہ محمد فاروق صاحب تھے۔ کیا یہ چار نمائندے اگر قصبہ گڑھی دوپٹا کا قرض اتارنا چاہیں تو اس کی قسمت نہیں بدل سکتی۔ اس کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام حکومتیں اس کے لیے حوصلہ افزاء اعلانات بھی کرتی رہی ہیں۔ مگر دلچسپی کسی نے نہیں لی۔ حکومتی جمود ایکشن کمیٹی کی ہڑتال نے توڑا تھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی فہرست میں گڑھی دوپٹا یہاں بھی نظر انداز کیا گیا۔ کم از کم ایک سب ڈویژن کا بہت پرانا مطالبہ ہی شامل کر دیا جاتا۔ مگر میرے خیال میں یہ قصور مقامی تاجر نمائندان کا ہے۔ لگتا ہے انہیں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں۔
قارئین کرام! حکومتی توجہ اور عوامی آگاہی کے لیے چند مسائل کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ شاید موجودہ متحرک حکومت ہمدردی کا مظاہرہ کر جائے۔
1۔ گڑھی دوپٹا کو سب ڈویژن کا درجہ دیا جائے۔ یہ تمام بنیادی چیزوں کو مد نظر رکھا جائے۔ تو میرٹ پر استحقاق ہے۔ وہ جیسے سالوں کے دوران عوامی ضرورت مگر سیاسی بنیادوں پر جن مقامات کو سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا ان پر اعتراض نہیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ گڑھی دوپٹا کا استحقاق ان سب سے زیادہ بنتا تھا۔ مگر عوام کی آواز کو نمائندوں نے اہمیت نہیں دی۔ اب بھی اگر متذکرہ بالا چار نمائندگان صرف پانچ منٹ مل بیٹھ کر اس پر اتفاق کر لیں تو یہ معاملہ فوری طور پر حل ہو سکتا ہے۔
2۔ دو حصوں میں تقسیم ٹاؤن کمیٹی دریا کے آر پار حلقہ نمبر 2اور حلقہ نمبر 4 کی حدود میں جس طرح کئی سال پہلے قائم ہوئی اسی طرح ہے۔ نہ اس کی حدود میں اضافہ کیا گیا، نہ ممبران کی تعداد بڑھائی گئی، عدم توجہ کا شکار ہے۔
3۔ سب سے اہم اور ضروری بات، حلقہ بندیوں کی غیر منطقی حدود ہے۔ حلقہ نمبر 2 مظفرآباد علی کہو پنجکوٹ جو مقبوضہ کشمیر کی بارڈر کے علاوہ ضلع نیلم کی حدود سے شروع ہوتا ہے۔ اور کنیناں حلقہ نمبر 6 کے ساتھ 5 ملتا ہے۔ عجیب حد بندی ہے۔ گزشتہ الیکشن سے قبل الیکشن کمیشن کے پاس اس ضمن میں مختلف اپیلیں بھی کی گئی۔ بتایا کہ گڑھی دوپٹا میں جو تعلیمی سہولیات ہیں ان کا حلقے کے بقایہ علاقے کو کوئی فائدہ نہیں۔
نمائندہ پسماندہ علاقے کی فکر کریں یا ٹاؤن کمیٹی پر توجہ دے۔ مگر سماعت کرنے والی کمیٹی شاید اتنی مجبور تھی کہ عوامی حقائق پر مبنی تجاویز کو غور سے سنا تک نہیں۔ یہ اہم مسئلہ اس موقع پر الیکشن سے قبل نئی حلقہ بندیوں اور سابقہ حلقوں کی حدود کے اثر نو تعین حل ہونے کی قوی امید ہے۔ اس کے لیے تجویز ہے کہ ٹاؤن کمیٹی گڑھی دوپٹا اور یونین کونسل دومیل جس میں ٹنڈالی، مجہوئی وغیرہ آتے ہیں۔ اسے حلقہ نمبر 4 میں شامل کر دیا جائے۔ اس طرح ضلع تحصیل تھانہ ڈاکخانہ ہٹیاں بالا کی طرف ایک پٹوار حلقہ نمبر 4 کے ساتھ دوسرے ضلع میں شامل کر کے عوام کے لیے مشکلات پیدا کی گئی ہیں۔ عوامی اپیلوں کی روشنی میں اسے اپنے ضلع کی حلقہ نمبر 7 میں شامل کیا جائے۔ اس طرح عوامی سہولت اور تعمیر و ترقی میں بہتری آئے گی۔ بعض امور ضلع کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ جس سے محض ایک پٹوار دوسرے ضلع میں شامل ہونے سے وہاں کی آبادی متاثر ہو جاتی ہے۔
قارین محترم! تسلیم شدہ اصول کے مطابق الیکشن کمیشن پاکستان کے قواعد کی طرح نئے الیکشن سے پہلے حلقہ بندیوں کا لازما جائزہ لیا جاتا ہے۔ امید ہے جن حلقہ جات کا اعلان کیا گیا ہے ان کی حدود کے تعین کچھ چھوٹی موٹی سابقہ خامیاں ازخود دور ہو جائیں گی۔ پھر بھی ڈنڈی ہر دور میں ماری جاتی ہے۔ مگر بیداری کے اس دور میں کوئی چیز عوام پر ٹھونسی نہیں جا سکتی۔ گڑھی دوپٹا کے دیگر مسائل سب ڈویژن کے قیام سے بڑی حد تک حل ہو جائیں گے۔ موجودہ حکومت کے کام کا آغاز عوامی ضروریات کو ترجیح دینے سے ہوا ہے۔ اس لیے امید ہے شاید گڑھی دوپٹا اور ملحقہ علاقہ جات کے اس پرانے درد کی بھی دوا کی جائے گی۔ ہر چیز کا سڑکوں پر نکل کر مطالبہ کرنے کا رواج اب بدلنا چاہیے۔ مہذب طریقے سے ضروریات کا اظہار اچھا طریقہ ہے۔ حکومت بھی حوصلہ افزائی کرے۔ الیکشن سے قبل نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی حلقوں کے تعداد میں اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ اس سے تعمیر و ترقی میں بہتری آئے گی۔ ترجیحات عوام کی سہولت اور آسانی ہونی چاہیے نہ کہ سیاسی بنیادوں پر۔ اگر اب بھی محض سیاسی دباؤ پر فیصلے کیے گئے تو قصبہ گڑھی دوپٹا اپنا رونا روتا رہے گا۔ عمر یونہی تمام ہوگی۔ آبادی کے اضافے اور دیگر عوامی سہولیات کے پیش نظر نئے انتخابی حلقوں کی منظوری اشد ضروری ہے۔ حکومتی گزشتہ تجاویز کے مطابق نئے حلقے بننے چاہئیں۔




