کالمز

مسلم لیگ کا یومِ تاسیس، اور نواز شریف کا سیاسی و تاریخی کردار

تحریر: سردار عبدالخالق وصی

برصغیر کی سیاسی تاریخ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام محض ایک جماعت کی تشکیل نہیں تھا بلکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی شعور، اجتماعی شناخت اور آئینی جدوجہد کا نقط? آغاز تھا۔ 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں قائم ہونے والی مسلم لیگ دراصل اس احساسِ محرومی کا عملی اظہار تھی جو طویل عرصے سے مسلمانانِ ہند کے دل و دماغ میں پنپ رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اکثریتی سیاست کے سائے میں مسلمانوں کے مذہبی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی حقوق بتدریج محدود کیے جا رہے تھے۔ مسلم لیگ نے پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ایک منظم، مربوط اور آئینی پلیٹ فارم فراہم کیا، جس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مسلمان اپنی شناخت، حقوق اور مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ یہی جماعت آگے چل کر تحریکِ پاکستان کی نظریاتی اور عملی بنیاد بنی۔
مسلم لیگ کی فکری اساس کو اگر کسی نے مہمیز دی تو وہ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال تھے۔ اقبال محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک عمیق مفکر، فلسفی اور سیاسی بصیرت کے حامل رہنما تھے۔ انہوں نے مسلمانانِ برصغیر کو یہ باور کرایا کہ محض مذہبی آزادی کافی نہیں بلکہ سیاسی اقتدار کے بغیر تہذیبی بقا ممکن نہیں۔ 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے برصغیر کے شمال مغربی علاقوں میں ایک خودمختار مسلم ریاست کا تصور پیش کیا، جو بعد ازاں تصورِ پاکستان کی فکری بنیاد بنا۔ اقبال نے مسلمانوں کے اندر خودی، خود اعتمادی اور اجتماعی شعور کو بیدار کیا اور یہی فکری سرمایہ بعد میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ایک منظم سیاسی جدوجہد میں ڈھل گیا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کا کردار مسلم لیگ کی تاریخ کا سب سے روشن اور فیصلہ کن باب ہے۔ ایک آئینی ماہر، جمہوری سیاست دان اور اصول پسند رہنما کے طور پر قائداعظم نے مسلم لیگ کو ایک منتشر اشرافی جماعت سے نکال کر ایک ہمہ گیر عوامی تحریک میں تبدیل کیا۔ انہوں نے دلیل، قانون، مذاکرات اور جمہوری جدوجہد کو اپنا ہتھیار بنایا۔ قراردادِ لاہور 1940ء سے لے کر 14 اگست 1947ء تک کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ نے طاقت، تشدد یا بغاوت کے بجائے آئینی راستے کو اختیار کیا۔ قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے یہ ثابت کیا کہ ووٹ، عوامی تائید اور سیاسی اتحاد کے ذریعے تاریخ کا دھارا بدلا جا سکتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائداعظمؒ کی جلد رحلت مسلم لیگ اور نوزائیدہ ریاست دونوں کے لیے ایک عظیم سانحہ ثابت ہوئی۔ وہ قیادت جو ایک شخص میں سمٹ کر قوم کو سمت دے رہی تھی، اچانک خلا کا شکار ہو گئی۔ اس خلا کا فائدہ بیوروکریسی اور غیر جمہوری قوتوں نے اٹھایا۔ مسلم لیگ جو قیامِ پاکستان تک ایک متحرک، نظریاتی اور عوامی جماعت تھی، آہستہ آہستہ اندرونی تقسیم، ذاتی مفادات اور اقتدار کی کشمکش کا شکار ہو گئی۔ مختلف ادوار میں آمریتوں کے زیرِ سایہ مسلم لیگ کو حاشیہ نشین کیا گیا، کبھی توڑا گیا، کبھی تقسیم کیا گیا اور کبھی محض اقتدار کے سہارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس تمام تر پس منظر میں مسلم لیگ کی جمہوری روح اگر مکمل طور پر معدوم نہ ہو سکی تو یہ اسی نظریاتی ورثے کا کمال تھا جو قائداعظم اور علامہ اقبال نے چھوڑا تھا۔ یہی ورثہ آگے چل کر میاں محمد نواز شریف کی سیاست میں ایک نئے انداز سے جلوہ گر ہوا۔ نواز شریف کا سیاسی ظہور محض ایک فرد کا اقتدار تک پہنچنا نہیں بلکہ مسلم لیگ کی جمہوری روایت کی نئی تشکیل تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر عوامی سیاست، پارلیمانی جمہوریت اور آئینی بالادستی سے جوڑا۔
نواز شریف کا سیاسی سفر دراصل پاکستان میں جمہوری مزاحمت کی عملی داستان ہے۔ تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے باوجود انہوں نے اقتدار کو اپنی سیاست کا واحد مقصد نہیں بنایا بلکہ اصولی مؤقف کو ترجیح دی۔ 1993ء اور 1999ء کے سیاسی بحران ہوں یا عدلیہ و پارلیمان کے اختیارات کا معاملہ، نواز شریف نے بارہا یہ مؤقف اختیار کیا کہ ریاست کا اصل سرچشمہ عوام ہیں اور آئین ہی بالاتر دستاویز ہے۔ 1999ء کے بعد جلاوطنی، قید و بند، نااہلیوں اور شدید سیاسی دباؤ کے باوجود ان کا بیانیہ تبدیل نہیں ہوا۔
نواز شریف کے سیاسی کردار کا ایک تاریخی سنگِ میل 2006ء کا چارٹر آف ڈیموکریسی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر طے پانے والا یہ معاہدہ دراصل پاکستان کی جمہوری سیاست میں ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی نے سیاسی انتقام، فوجی مداخلت اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف ایک مشترکہ قومی لائح? عمل پیش کیا۔ یہ دستاویز اس بات کا ثبوت تھی کہ نواز شریف کی سیاست محض اقتدار کی نہیں بلکہ نظام کی اصلاح کی سیاست ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ادوارِ حکومت میں آئینی اداروں کو مضبوط کرنے، پارلیمان کی بالادستی قائم کرنے، عدالتی آزادی کے لیے فضا ہموار کرنے اور میڈیا کو وسعت دینے کے لیے عملی اقدامات کیے گئے۔ آئین کی بالادستی، اٹھارویں ترمیم کے تسلسل، صوبائی خودمختاری، معاشی استحکام، سی پیک جیسے بڑے ترقیاتی منصوبے اور خارجہ محاذ پر متوازن پالیسی مسلم لیگ (ن) کے ریاستی وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔
آج جب مسلم لیگ اپنا یومِ تاسیس مناتی ہے تو یہ دن محض ماضی کی یاد نہیں بلکہ مستقبل کے تعین کا موقع بھی ہے۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبال کے فکری ورثے سے لے کر نواز شریف کی جمہوری جدوجہد تک مسلم لیگ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ جماعت جمہوریت، آئین اور عوام کے بغیر پاکستان کا تصور نہیں کرتی۔ موجودہ قیادت اور میاں نواز شریف کی فکری رہنمائی میں مسلم لیگ (ن) آج بھی اسی تسلسل کی نمائندہ ہے جو 1906ء میں ڈھاکہ سے شروع ہوا تھا۔
یوں مسلم لیگ کا یومِ تاسیس ہمیں صرف ایک تاریخی جماعت کے قیام کی یاد نہیں دلاتا بلکہ یہ اس عہد کی تجدید کا دن بھی ہے جو مسلمانوں نے اپنے سیاسی، آئینی اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے کیا تھا۔ علامہ اقبال کے فکری تصور سے لے کر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عملی جدوجہد اور پھر میاں محمد نواز شریف کی جمہوری مزاحمت تک، مسلم لیگ کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد، قربانی اور استقامت کی داستان ہے۔ آج کے پیچیدہ قومی حالات میں بھی یہی نظریاتی تسلسل پاکستان کو درپیش آئینی، معاشی اور سیاسی چیلنجز کا واحد پائیدار حل فراہم کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اگر اپنے اس تاریخی ورثے سے وفادار رہتے ہوئے آئین کی بالادستی، عوامی حاکمیت اور جمہوری تسلسل کو اپنا رہنما اصول بنائے رکھتی ہے تو یہ نہ صرف اپنے بانیان کے مشن کی امین ثابت ہو گی بلکہ پاکستان کے مستقبل کو بھی ایک مضبوط، مستحکم اور باوقار سمت فراہم کرے گی۔

Related Articles

Back to top button