یہ کیسے پاکستانی ہیں

پاکستان تحریک انصاف اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے سب سے عجیب، پیچیدہ اور انتشار زدہ دور سے گزر رہی ہے۔ عمران خان سے اس جماعت کے کارکنوں، قیادت اور ووٹرز کی عقیدت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، لیکن یہی عقیدت اب ایک طرح کے جنون، جذباتی ہیجان، نفسیاتی دباو? اور غیر منطقی توقعات میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک طرف تو عمران خان کو ہر قیمت پر رہا کرانے کا جذباتی عزم ہے، دوسری طرف عملی حکمت عملی، سیاسی پختگی، تنظیمی ڈھانچہ اور طویل مدتی منصوبہ بندی کا مکمل فقدان نظر آتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پی ٹی آئی نہ عدالتوں میں عمران خان کا مؤثر قانونی دفاع کر پا رہی ہے، نہ سیاسی دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو رہی ہے، نہ عوامی سطح پر کوئی ٹھوس، متحد اور پائیدار بیانیہ قائم کر پا رہی ہے، اور نہ ہی پارٹی کے اندر اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی گنجائش باقی رہی ہے۔ماضی میں پی ٹی آئی نے کئی بار بیرونی طاقتوں، بالخصوص امریکہ سے براہِ راست مدد کی توقع رکھی۔ 2022 میں ریجیم چینج آپریشن کا بیانیہ بنایا گیا، سائفر کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا گیا، اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان کی حکومت ایک امریکی سازش کے نتیجے میں گری۔ اس کے بعد 2024 کے امریکی انتخابات سے قبل پارٹی کے ترجمانوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور کئی سینئر رہنماو?ں نے کھلے عام یہ بات کی کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بن جائیں تو عمران خان کی رہائی یقینی ہے۔ امریکہ میں عام انتخابات کے بعد ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو چکے ہیں، پارٹی کے اندر ایک نئی امید جاگ اٹھی تھی، حالانکہ ابھی تک نہ تو ٹرمپ کی طرف سے کوئی بیان آیا ہے، نہ وائٹ ہاو?س کی طرف سے کوئی اشارہ، اور نہ ہی امریکی کانگریس یا سینیٹ میں پاکستان کے اندرونی معاملات پر کوئی سنجیدہ بحث ہو رہی ہے۔ یہ طرزِ سیاست نہ صرف غیر حقیقی اور غیر سنجیدہ ہے بلکہ پاکستان کی خودمختاری، وقار اور قومی مفادات کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
پی ٹی آئی کی پالیسیوں میں کوئی تسلسل، ٹھہراؤ یا وضاحت نظر نہیں آتی۔ ایک طرف وہ خود کو قومی دھارے میں لانے اور ریاستی اداروں سے تعاون کی بات کرتی ہے، دوسری طرف افواجِ پاکستان کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز بیانیہ اپنائے رکھتی ہے، حالانکہ آپ اگر مئی کی جنگ دیکھیں تو اس میں افواج پاکستان نے جرات اور بہادری کے ساتھ یہ جنگ اپنے نام کی دنیا میں پاکستان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا، وہی ٹرمپ جس سے یہ جماعت ایک امید لگا کر بیٹھی تھی اس نے ہمارے افواج کے سربراہ گیلڈ مارشل عاصم منیر کی جرات وبہادری کی تعریف کی اور کئی اہم مواقع ہر بھارت کے سات جنگی طیارے تباہ کرنے کی بات کرکے پاکستان کا لوہا منوایا جبکہ دوسری جانب نو مئی 2023 کے پرتشدد واقعات کے بعد سے فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر جو منظم مہم چلائی جا رہی ہے، اس نے نہ صرف جماعت کو ریاستی اداروں سے براہِ راست تصادم کی راہ پر ڈال دیا ہے بلکہ معاشرے کے ایک بڑے طبقے نے پی ٹی آئی کو ”انتشار پارٹی” اور ”فسطائی جماعت” کا لیبل دے دیا ہے۔ فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ قومی سلامتی کے سوال سے جوڑ دی گئی ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی بھی اس سے دوری اختیار کرنے لگا ہے۔ یہی نہیں تحریک انصاف نے افغانستان، افغان مہاجرین، ٹی ٹی پی اور دہشت گردی کے معاملے پر بھی اسکی پوزیشن میں حیران کن تضادات ہیں۔ افغان مہاجرین کی انکے وطن واپسی کے حوالہ سے ابھی تک جماعت کی سیاسی پالیسیاں واضع نہیں ہو سکیں، کبھی انسانی حقوق کے نام پر ان کے خلاف کارروائی کی مذمت کرتی ہے، کبھی طالبان حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات کرتی ہے، اور کبھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو غلط قرار دیتی ہے اور کبھی درست۔ یہ تضادات اس بات کی واضح عکاسی کرتے ہیں کہ جماعت کے پاس خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی ٹھوس، مستقل اور واضح لائحہ عمل نہیں۔ اسی طرح کشمیر، بھارت، فلسطین اور دیگر اہم قومی و بین الاقوامی معاملات پر بھی پی ٹی آئی کا بیانیہ اکثر جذباتی، سطحی اور غیر سنجیدہ نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی اینکرز، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو انٹرویوز دینا، ان کے پروگراموں میں شرکت کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات زیرِ بحث لانا، اور ان سے ہمدردی کی توقع رکھنا؛ یہ سب کچھ نہ صرف سیاسی بچگانہ پن کی علامت ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جو کبھی اس کی سب سے بڑی طاقت تھا، اب ایک منظم مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ مافیا نہ صرف سیاسی مخالفین، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو نشانہ بناتا ہے بلکہ پارٹی کے اپنے رہنماو?ں، کارکنوں اور ووٹرز کو بھی نہیں بخشتا۔ اگر کوئی شخص عمران خان سے کماحقہ اختلاف بھی کرے، یا پارٹی کی پالیسی پر تنقید کرے تو اسے فوراً ”لفافہ”، ”میر جعفر، میر صادق”، ”غدار” یا ”ایجنٹ” قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی دباو? نے پارٹی کے اندر اختلافِ رائے، خود احتسابی اور سنجیدہ مباحثے کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی کے اندر کوئی پالیسی ڈسکشن نہیں ہو رہی، کوئی حکمت عملی نہیں بن رہی، اور جو لوگ تنقید کرتے ہیں انہیں یا تو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پر اتنا ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت حال پارٹی کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ عمران خان کی رہائی کا انحصار نہ تو امریکہ پر ہے، نہ بھارت پر، نہ سوشل میڈیا کی گالم گلوچ پر، اور نہ ہی جلاؤ گھیراؤ پر۔ اس کا انحصار صرف اور صرف پاکستان کے اندرونی قانونی، سیاسی اور ادارہ جاتی ڈھانچے پر ہے۔
جب تک پی ٹی آئی ریاستی اداروں سے ٹکراو? کی پالیسی ترک نہیں کرتی، جب تک وہ اپنے سوشل میڈیا کو نظم و ضبط میں نہیں لاتی، بیرونی طاقتوں سے امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ نہیں دیتی، پرامن، قانونی اور آئینی جدوجہد کا راستہ اختیار نہیں کرتی، تب تک عمران خان کی رہائی ایک خواب ہی رہے گی۔ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اپنی سیاسی پختگی کا ثبوت دے، اپنے بیانیے کو قومی دھارے میں لائے، سوشل میڈیا مافیا کو لگام دے، اور ایک ذمے دار، سنجیدہ اور پائیدار اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔ لیکن اگر یہی جذباتی سیاست، سازش، اداروں سے تصادم، اور سوشل میڈیا کی گالم گلوچ جاری رہی تو یہ جماعت نہ تو عمران خان کو رہا کروا سکے گی بلکہ خود اپنی سیاسی بقا بھی خطرے میں ڈال دے گی۔ وقت ابھی مکمل طور پر ہاتھ سے گیا نہیں، سمجھ جائیں اور سدھر جائیں




