کالمز

,6نومبر 1947ء۔۔۔جموں کا قتل عام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(میرے والد مرحوم کی دلخراش یادیں)

ترتیب: عدنان رشید ملک

کئی دھائیاں بیت گئی ہیں جموں، اودھم پور، ریاسی، کٹھوعہ کے اضلاع میں مسلمانوں پر ڈوگرہ فوج کی پشت پناہی سے راشٹریہ سوک سنگھ کے رضاکاروں اور ہندو نوجوانوں نے سفاکی اور وحشت کی قیامت بپا کر دی تھی آج بھی ان جگر خراش اور ہولناک واقعات کی یاد سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ دل درد و غم کے تلاطم میں ڈوب سا جاتا ہے اور زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔
1931ء سے لے کر آج تک کشمیر کی آزادی کیلئے بڑے خون آشام معرکے بپا ہوئے ہیں۔ ان میں نومبر 1947ء کے پہلے ہفتے میں صوبہ جموں کے اضلاع میں جس بے دردی اور شقاوت قلبی کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہایا گیاتھا اس کے تصور سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ڈوگرہ فوج اور واشٹریہ سوک سنگھ اور دوسرے ہندو رضاکاروں نے ان چار اضلاع کے نہتے مسلمانوں پر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت بربریت اور قتل و غارت کی ایک ایسی قیامت بپا کر دی تھی کہ ہندوستان کی فوجوں کے سری نگر میں اُترنے کے بعد شیخ محمد عبداللہ کو اقتدار اعلیٰ سونپا گیا تو اُنہوں نے جموں کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ جموں شہر سے چند میل باہر ڈگیانہ کیمپ میں زخمی اور بے یارومددگار مسلمانوں کے چھوٹے سے اجتماع میں شیخ محمد عبداللہ نے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے بعد اُنہیں حوصلہ دینے کیلئے خطاب کیا۔ خوف و ہراس میں ڈوبی ہوئی اس فضا میں ستم رسیدہ مسلمانوں کے اجتماع سے ایک 10سالہ بچہ جو ننگے پاؤں اور پھٹے کپڑوں میں ٹھٹھر رہا تھا دوڑ کر آیا اور شیخ محمد عبداللہ کی ٹانگوں سے لپٹ گیا، شیخ صاحب کی شقاوت قلبی پگھل گئی اور اُن کی چیخیں نکل گئیں۔
٭ اِس طرح دردناک اور رقت انگیز واقعات مختلف جگہوں پر رونما ہوئے تھے ریاسی شہر میں 4نومبر کی دوپہر کو ڈوگرہ فوج کا دستہ پہنچا تو شہر کے 2مسلمان معززین خواجہ امکلہ رئیس اعظم اور چوہدری عزیز الدین ڈپٹی کمشنر، گورھن سنگھ کی رہائش گاہ پر یہ شکایت لے کر گئے کہ شہر میں امن کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں لہٰذا ڈوگرہ فوج کا دستہ کیوں شہر میں داخل ہو ا ہے ڈِپٹی کمشنر کی رہاہش گاہ کی دہلیز پر ان دونوں معززین کی گردنیں تلوار سے اُڑادی گئی تھیں۔
٭ ضلع کے ایڈیشنل مجسٹریٹ راجہ مظفر خان دوپہر کے ایک بجے کے قریب افسر مال (جو ایک ڈوگرہ راجپوت تھا) کے ہمراہ بازار میں چکر لگا رہے تھے اور لوگوں کو تلقین کر رہے تھے کہ وہ اطمینان سے اپنی دوکانیں کھولیں اور کسی قسم کا خوف و ہراس محسوس نہ کریں آدھ گھنٹے کے بعد ڈوگرہ فوج کی کورنگ فائرنگ میں سنگ پارٹی کے نوجوان مسلمانوں کے محلوں میں پھیل گئے تو گلی کی ایک نکڑ پر اِسی راجہ مظفر خان کو پستول کی گولیوں سے ڈھیر کر دیا تھا۔
٭ اِس شہر میں بھدرواہ کے ایک خوب صورت تعلیم یافتہ نوجوان خواجہ غلام علی محکمہ پولیس میں پبلک پراسیکیوٹر تھے جب شہر میں ڈوگرہ فوج کی گولیوں اور دیسی توپ کے گولوں سے قیامت بپا تھی تو خواجہ غلام علی قلعہ کی اوٹ میں چھپے رہے اگلی صبح اس خیال سے قریب کے پولیس اسٹیشن چلے گئے کہ تھانہ دار ہم پیشہ ہے، شایدمیری حفاظت کر لے لیکن ہندو تھانہ دار کی آنکھ کا پانی مر چکا تھا اُس نے خواجہ غلام علی کو سنگ پارٹی کے نوجوانوں کے حوالے کر دیا وہ انہیں پکڑ کر احاطہ کچہری کے سامنے لائے راہ میں کبھی خواجہ غلام علی کی آنکھ پھوڑ دیتے، کبھی ناک کاٹتے اور کبھی کان، اُن کی گردن اور سینے میں برچھیوں کی نوکیں داغتے، خواجہ غلام علی چیخ چیخ کر دھائی دیتے کہ مجھے ایک دفعہ مار دو، سنگ دل سنگ پارٹی کے نوجوان جواب دیتے کہ ہم تمہیں پاکستان بھیج رہے ہیں۔
٭ ضلع اودھم پور کے ڈپٹی کمشنر راجہ سرور خان (جو کہ ہمارے سابق سیکرٹری سروسز راجہ عبدالخالق (مرحوم)کے والد تھے) ہیڈکوارٹر پر موجود رہے کہ وہ ضلع میں امن قائم کرنے کی اخلاقی و انتظامی ذمہ داری نبھانا چاہتے تھے لیکن اُنہیں بازار میں جیپ سے اُتار کر ڈوگرہ اور سنگ پارٹی کے نوجوانوں نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔
٭ محلہ مست گڑھ کے مستری عطا محمد کی تین بیٹیاں تھیں بڑا خوددار اور محنت کش مسلمان تھا اُس نے خدشہ محسوس کیا کہ راہ میں کہیں بیٹیوں کی آبرو پر کسی درندہ صفت ہندو کا ہاتھ نہ پڑ جائے اُس نے دل کو کڑا کیا حوصلہ باندھا اور تینوں بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دیا۔ اُن کے خون سے برآمدے کی دیوار پر موٹے حروف سے لکھا ”پاکستان زندہ باد“۔ اُن کی لاشوں کو وہ وہیں چھوڑ کر پاکستان آنے والے قافلوں میں شامل ہو گیا۔ خود بخیریت پہنچ گیا لیکن اپنی بیٹیوں کی غیرت و ناموس کو خطروں سے محفوظ کر آیا تھا۔
٭ ہماری آزاد کشمیر حکومت کے ایک سینئر سیکرٹری طارق مسعود جن کا تعلق جموں شہر سے تھا وہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ ماوا کی جانب رواں ٹرکوں کے قافلوں میں شامل ہو گئے تھے اِس اُمید کے ساتھ کہ اُنہیں بحفاظت پاکستان پہنچا دیا جائے گا لیکن جب ٹرکوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا تو وہ اور اُن کے خاندان کے چند لوگ اُن ٹرکوں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے وہ چار روز تک ننگے پاؤں پیدل بھوکے پیاسے چلتے ہوئے گجرات کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ اُس وقت پر اُن کی عمر 10برس کے لگ بھگ تھی۔ اُن کے خاندان کے کئی افراد شہید کر دیئے گئے تھے۔
٭ میں خود جب ریاسی قصبہ کے قریب جنگلوں میں 15دِن چھپتا چھپاتا شہر میں داخل ہوا تو شہر ایک گہرے سناٹے کی چادر میں لپٹا ہوا تھا مسلمان شہید کر دیئے گئے تھے، اور ہندو سہمے ہوئے تھے کہ رام پوری کی طرف سے بڑھنے والے مجاہدین کہیں ریاسی شہر میں داخل نہ ہو جائیں۔ میرے والد نے اُس دِن مجھے اور خاندان کے دیگر لوگوں کو جنگل میں چھپنے کی ہدایت کی اور خواتین کو ہم نے گھر کے قریب ایک الگ کمرے میں چھپا دیا جس میں میری بیوی اور 9ماہ کا کم سن بچہ بھی تھا۔ میرے والدین میری پھوپھیاں، بہنیں اور بھائی یہ تقریباً خاندان کے22افراد تھے جنہیں ہم نے اپنی طرف سے محفوظ بنا لیا تھا۔ میں جب جنگل میں 15روز گزار کر واپس آیا تو گھر میں ایک سناٹا تھا اِن سب کو شہید کر دیا گیا تھا میرے خاندان سے کوئی بھی نہیں بچا تھا حتیٰ کہ میرا 9ماہ کا کم سن بچہ بھی ہندوبلوائیوں کے نیزے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اِسی اثناء میں مجھے ایک ہندو حوالدار نے میری گردن پر تلوار رکھ دی لیکن اُس کے ساتھ موجود ساتھی نے اُسے ایسا کرنے سے منع کیا اور مجھے گرفتار کر کے ایک تاریک کمرے میں بند کر دیا۔ شام کے سائے پھیل رہے تھے کمرہ بالکل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا فرش پر ایک چٹائی پر بھربھرے جسم کا حوالدار لالٹین کی مدقوق سی روشنی میں خاموش بیٹھا تھا۔ میں سہما ہوا کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے ساتھ چٹائی پر بیٹھا تو حوالدار نے اپنی مونچھوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے پوچھا! بابو جی آپ کہاں تھے؟ میں نے دبکی سی آواز میں کہا! یہیں تھا! آپ اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر چلے گئے حوالدار نے اپنے بھربھرے سے چہرے کو اور پھیلاتے ہوئے پوچھا! وہ بچے ہی کہاں ہیں میں نے رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ حوالدار جھٹ سے بولا کہ وہ تو ہم نے سب پاکستان بھیج دیئے ہیں۔
٭ جموں شہر کے مسلمانوں پر نومبر کے پہلے ہفتے میں ہی گولیاں برسنا شروع ہو گئی تھیں وہ سمٹ سمٹا کر دلپتیاں کے محلہ میں اکٹھے ہو گئے اسلحہ اُن کے پاس نہیں تھا چند مسلمان رضاکاروں نے کچھ بارودی سامان تیار کیا لیکن وہ اِس کے ساتھ ڈوگرہ فوج کے مسلح دستوں کے ساتھ مقابلہ کب تک کرتے۔ سہمے ہوئے اور بے یار و مددگار مسلمان ہزاروں کی تعداد میں بیوی بچوں ماؤں بہنوں کو لے کر پولیس لائن میں جمع ہو گئے تھے تین دن تک وہ نیلے آسمان کے نیچے روٹی پانی کو ترستے رہے۔ 6نومبر کو سامنے سڑک پر بسیں لا کر کھڑی کی گئیں اور ان ستم رسیدہ مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ پاکستان جانے کیلئے بسوں پر سوار ہو جائیں۔ یہ لاچار مسلمان دوڑتے بھاگتے بسوں کی چھتوں پر سوار ہو گئے لیکن اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ اُنہیں پاکستان بھیجنے کے بجائے ڈوگرہ فوجیوں اور سنگ پارٹی کے رضاکاروں نے تہ تیغ کرنا ہے۔ چنانچہ اِن بسوں کے قافلے سوچیت گڑھ کی سرحد پر جو صرف 17میل کے فاصلے پر تھی لے جانے کے بجائے سامبہ کی سڑک پر ماھوا کی طرف موڑ دیئے گئے۔ ماھوا میں ہزاروں
ہندو بندوقوں، تلواروں اور برچھیوں کے ساتھ گھات کھڑے تھے۔ جونہی نہتے مسلمانوں سے لدی یہ گاڑیاں وہاں پہنچیں یہ ہندورضاکار وحشی جانوروں کی طرح اِن پر پل پڑے، قتل و غارت کا ایک بازار رچایا گیا جوان بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو گاجرمولیوں کی طرح کاٹ دیا گیا۔ ماھوا کا یہ بیابان علاقہ مسلمانوں کی لاشوں سے اَٹ گیا اور اس کی قریبی نالیاں خون سے بھر گئیں۔ جھاڑیوں میں سے زخمی بچے اور دم توڑتی عورتوں کی آہیں اور چیخیں قیامت کا منظر پیش کر رہی تھیں۔
٭ ریاست جموں و کشمیر میں تحریک پاکستا ن کا گڑھ جموں شہر تھا شہر میں مسلمان اقلیت میں تھے لیکن تنظیمی اور سیاسی اعتبار سے بڑے جرأت مند اور بڑے باشعور تھے۔ صوبہ جموں کے دوسرے اضلاع جن میں کٹھوعہ اودھم پور ریاسی میرپور اور پونچھ شامل ہیں میں تحریک پاکستان پورے جوش و خروش سے جاری تھی اِس تحریک اور جہاد کے ردِ عمل کا نشانہ اِنہی اضلاع کے مسلمان بن گئے تھے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے تخت نشینی کے بعد اعلان کیا تھا کہ ہندو اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں لیکن پاکستان کے قیام کے بعد جہادِ کشمیر کے شروع ہوجانے سے اُس نے اپنے راج سنگھاسن کواُجڑتا دیکھ کر اپنی ایک آنکھ پھوڑ کر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا پروگرام شروع کر دیا تھا گویا جموں سے مسلمانوں کا قتل عام پاکستان کے قیام اور ریاست کے اس کے ساتھ الحاق کے خوف کا شاخسانہ تھا۔ اِس اعتبار سے جموں کے مسلمانوں کی قربانیاں حادثانی یا وقتی اظہار غضب کا اعلان نہیں تھیں یہ تاریخ کے دو ابواب میں سے ایک خوفناک اور بھیانک باب کا حصہ تھیں جہاں جموں کے مسلمانوں کے دِلوں میں پاکستان سے محبت اور اُس کے لیے قربانیوں کا جذبہ اُبل اُبل رہا تھا وہاں پر ریاست کے ڈوگرہ حکمران اور اُس کی فوج اور اُس کی قوم کے نوجوانوں کے دِلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت اور غضب کے جذبات بپھر بپھر رہے تھے۔
ریاست جموں و کشمیر میں خون کی ہی ہولی آج بھی کھیلی جا رہی ہے کشمیر میں ہمارے بھائی اسی نصب العین اور اسی پاکستان کے ساتھ وابستگی اور ہندوستان کے ناجائز غلبے سے نجات کے جذبہ کے تحت بے مثال قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں آزاد ی کی تحریک خون سے لت پت ہے۔
٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button