کالمزمظفرآباد

نبی کریم ﷺ کی آمد کی بشارتیں اور ولادت سے قبل علامات کا تحقیقی جائزہ

ڈاکٹر محمد فیصل (اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ہری پور)

سیرتِ خیرالانام کے اس حصہ میں پیشگوئیوں اور بشارتوں کی روشنی میں یہ حقیقت آشکار کی جائے گی کہ نبی اکرم ﷺ کی آمد محض اتفاق نہیں بلکہ زمان و مکان سے بالاتر ایک عالمگیر واقعہ تھی۔ قرآن، تورات، انجیل اور دیگر آسمانی صحائف نے اس کی نوید دی، اور ولادت سے قبل رونما ہونے والے عجائب و علامات نے یہ ظاہر کر دیا کہ انسانیت ایک عظیم رہنما و مصلح کے ظہور کی شدت سے منتظر تھی۔ آج ہم اس داستان کے دو اہم پہلوؤں پر نگاہ ڈالیں گے: پہلا، آپ ﷺ کی ”مصلح” کے طور پر آمد کی سابقہ ادیان و مذاہب میں بشارتیں، اور دوسرا، آپ ﷺ کی ولادت سے قبل نمودار ہونے والے اہم واقعات، جو اس عظیم رحمت کی پیشگی جھلکیاں ہیں۔
پہلا محور: نبی ﷺ کی آمد کی بشارتیں
نبی اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی آمد کی بشارتیں مختلف آسمانی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں قرآن، تورات، زبور اور انجیل شامل ہیں۔ یہ بشارتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ آپ ﷺ کا ظہور ایک متوقع واقعہ تھا، جو دنیا بھر میں ایک بڑی خبر کے طور پر قبول کیا گیا۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا ہے کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام نے وقتا فوقتا آپ ﷺ کی آمد کی پیشگوئی کی، جس کا ذکر خاص تورات، زبور اور انجیل میں موجود ہے۔ اس ضمن میں صحیفہ انقلاب قرآن حکیم میں واضح آیات ہماری توجہ اس طرف مبذول کرواتی ہیں، مثلا: ایک مقام پر آتا ہے: ‘ِ” (الاعراف: 157) جس میں نبی آخر الزماں ﷺ کی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو پچھلی کتابوں میں موجود ہیں۔ جبکہ سورۃ الصف آیت 6 میں حضرت عیسیٰؑ کی زبانی بشارت کا ذکر ہوا ہے:…” جس میں ”احمد” کا ذکر ہے، جو مفسرین کے نزدیک بشارت کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ اس جگہ پر نام”احمد” کی صراحت بہت اہم نکتہ ہے جو تمام غلط فہمیوں کا دروازہ بند کرتا ہے اور انکار کرنے والوں کے لیے حجت فراہم کرتا ہے۔ یہ بشارت نہایت خاص اور تاریخی ہے۔ محدثین جیسے امام سیوطیؒ اور امام نوویؒ اس بات پر متفق ہیں کہ ”احمد” اور ”محمد” دونوں نام نبی ﷺ کی پیشگوئی میں ذکر کیے گئے ہیں۔ مزید برآں اس ضمن میں احادیث مبارکہ میں بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے خود کو ”احمد” اور ”محمد” کے ناموں سے متعارف کیا۔ اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن سلامؓ جو ایک سابقہ یہود ی عالمِ تھے، ایمان لانے کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ ﷺ کی صفات تورات میں پہچانی۔ عیسائی متون میں آنے والے نبی کے لیے ”Paraclete” کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا ایک اور مطلب ”بہت تعریف والا” ہے، جو ”احمد” کے معنی سے مطابقت رکھتا ہے۔
سابقہ آسمانی کتابوں میں نبی ﷺ کی بشارتوں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان پیشگوئیوں کی تائید قرآن کرتا ہے۔ تورات میں ”نبی مثلک”اور ”اخوت” کا ذکر موجود ہے (استثناء 18:18)۔ مؤرخین اور مفسرین کا اس پر متفق ہونا کہ یہ بشارت محمد ﷺ کے حق میں ہے، اشارہ کرتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰؑ کی مانند شریعت، حکومتی نظام اور عسکری قیادت کے حوالے سے بھی ہیں۔ اسی طرح دوسری بشارت ”پارَان” کا ذکر میں پایا جاتا ہے(استثناء 33:2)، جہاں نور کا ظہور مکہ مکرمہ سے واقع ہوا۔ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ پیغامبر کا مقام، نبی آخر الزماں ﷺ کے ظہور کی جغرافیائی حیثیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کی قوم کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی نسل میں نبوت صرف محمد ﷺ کو ملی (پیدایش 17:20)۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ انجیل میں بھی نبی ﷺ کی صفات کا ذکر موجود ہے، جیسے کہ ”فارقلیط” کی پیشگوئی (یوحنا 14، 15، 16)۔ مسلمان ”پریکلیٹوس” کو ”احمد” کے معنوں میں سمجھتے ہیں۔ اسی طرح، انجیل برناباس میں ”محمد” کا صریح نام بھی ذکر ہے، جو نبی ﷺ کی آمد کی تاریخی تصدیق کرتا ہے۔ موجودہ اور قدیم بائبل کے نسخوں کا تقابلی جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی آخری الزماں ﷺ کا نام، صفات، اور مشن واضح طور پر موجود ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ”پیریکلیٹوس” اور ”پریکلیٹوس” کے الفاظ نبی ﷺ پر محمول ہیں، اور قرآن کا دعویٰ تاریخی شواہد اور مختلف مخطوطات سے متفق ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بشارتیں خیرالانام ﷺ کے حق میں ہیں۔ مزید برآں علماء اور محققین کی رائے واضح کرتی ہیں کہ ان بشارتوں کا مصداق محمد ﷺ ہی ہیں۔ جبکہ مذکورہ کتب میں بشارتی علامات خاص طور پر نبی ﷺ پر ہی صادق آتی ہیں: انہوں نے سچائیوں کی مکمل معلومات فراہم کی، وحی کی حقیقت کو بیان کیا، اور دنیا کو گمراہی سے نکالنے کا کام کیا۔
اس ضمن میں کئی مسیحی اور جدید غیر مسلم محققین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ/ ”Paraclete” Comforter دراصل ”Coming Prophet” کی طرف اشارہ ہے، جو ایک انسانی شخصیت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور نبی ﷺ پر زیادہ موزوں انداز میں صادق آتا ہے۔ مزید برآں، اہلِ کتاب کے علما اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر مفسرین، محدثین، اور محققین جیسے ابن کثیرؒ اور امام طبریؒ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ”فاران” کا مطلب مکہ مکرمہ ہے۔ یہ یونیورسل نور جو مسلمانوں کے لیے آیا، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی شریعتوں کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے۔ لہذا، نبی کریم ﷺ کی بعثت غیر متوقع نہیں تھی، اور اس کی نشانیاں پہلے سے موجود تھیں۔ اہلِ کتاب بھی آپ ﷺ کی آمد کے حوالے سے باخبر تھے، جیسے کہ ورقہ بن نوفل، حضرت عبداللہ بن سلامؓ، اور بحیرا راہب نے نبی ﷺ کی علامات کے ذریعے پہچانا۔ ان اسناد کے ساتھ ساتھ مقدس متون میں آپ ﷺ کا ذکر اس بات کی واضح علامت ہے کہ آپ کی بعثت پچھلی وحی کی تکمیل تھی۔
علاوہ ازیں بشارتوں کا یہ سلسلہ فقط یہاں پر ہی نہیں رکتا بلکہ یہاں سے ہوتے ہوئے دیگر مذاہب میں بھی آپ علیہ السلام سے متعلق بشارتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، جیسے کہ زبور میں ”نیا گیت” اور ”خدا کے محبوب” کی علامتیں جو ”رحمت للعالمین” کے حوالے سے ہیں۔ پارسی صحیفے آوستا میں آخری پیغمبر کا ذکر ہے جو امن لانے والا ہوگا اور عرب سے مبعوث ہوگا، جو آپ ﷺ کی صفات سے ہم آہنگ ہے۔ ہندو صحیفوں میں اوتار ”کلکی” کی پیشگوئی ہے، جو سفید اونٹ پر سوار ہو گا اور حق و باطل کی جنگ کے لیے آئے گا۔ مدینہ کے یہودی قبائل بھی آخری نبی کی آمد کا ذکر کرتے تھے اور عرب کے موحدین جیسے زید بن عمرو آپ ﷺ کی آمد کے منتظر تھے۔ یہ تمام امور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خیر الانام علیہ التحیۃ والسلام کی آمد کوئی اچانک عجوبہ جیسی نہیں تھی بلکہ باضابطہ حیثیت سے تھی جس کی منتظر کئی اقوام و قبائل تھے۔
دوسرا محور: نبی ﷺ سے قبل علامات
نبی کریم ﷺ کی ولادتِ مبارکہ سے قبل دنیا ایسے گہرے تغیرات سے گزر رہی تھی جو تاریخ کے رخ کو بدلنے والے تھے۔ خصوصاً مشرقِ قریب میں فکری انتشار، مذہبی اضطراب اور سیاسی زوال نے ایسی فضا پیدا کر دی تھی کہ نوعِ انسانی ایک عظیم مصلح، ایک نجات دہندہ اور ایک سچے رہنما کی آمد کی منتظر نظر آتی تھی۔ مختلف تہذیبوں، مذاہب اور روایات میں ایک آنے والے منجی کا تصور رائج تھا، گویا ہر دل میں امید کی ایک مدھم شمع ٹمٹا رہی تھی کہ ظلمتِ زمانہ کو کوئی نئی روشنی ضرور ملے گی۔ رومی اور ایرانی سلطنتیں، جو کبھی طاقت و جاہ و جلال کی علامت تھیں، اندرونی انتشار اور مسلسل جنگوں کے باعث کمزور پڑ چکی تھیں۔ مذہبی اختلافات نے روحانی آسودگی چھین لی تھی اور معاشی ابتری نے عوام کو بے چین کر رکھا تھا۔ انسانیت گویا تھک چکی تھی، اور ایک ایسے رہنما کی تلاش میں تھی جو اسے عدل، رحمت اور راستی کی طرف لے جائے۔ انہی حالات میں ربّ ذوالجلال کے فیصلے نے کروٹ لی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعد? ابراہیمی کی تکمیل کا وقت قریب کر دیا تھا۔ نبی آخر الزمان ﷺ کو حضرت ابراہیمؑ کی نسل میں، حضرت اسماعیلؑ کی اولاد سے ظاہر ہونا تھا۔ اسی وعدے کی تعبیر میں حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ اور ان کی نسل کو وادء بے?آب و گیاہ—مکہ—میں بسایا، اور اسی سرزمین کو مرکزِ توحید اور نبوتِ محمدیہ کے ظہور کے لیے منتخب فرمایا۔ یوں تاریخ نے اپنے صفحات پر ایسے کئی واقعات رقم کیے جو آنے والے رسول کی آمد کے مقدمات تھے، اور جو اس بات کی واضح نشاندہی کرتے تھے کہ وہ عظیم ہستی جس کے دم سے انسانیت کو نئی زندگی ملنی تھی، جلد جلوہ گر ہونے والی ہے۔ ان میں سے چند اہم واقعات درج ذیل ہیں:
1. اہل کتاب کی جزیرہ عرب کی طرف نقل مکانی: یہودیوں نے اپنی آسمانی کتابوں کے مطالعے سے جان لیا تھا کہ نبی موعود کا ظہور سرزمینِ فاران سے ہونا ہے، جس نے انہیں جزیرہ عرب کی طرف نقل مکانی پر مجبور کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ آنے والا رسول بنی اسحاق میں سے ہوگا، اس لیے وہ اس علاقے میں آباد ہونے لگے تاکہ سب سے پہلے اس نبی پر ایمان لا کر غلبہ حاصل کریں۔ عبرانی بائبل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، اور مسلمانوں کے مطابق فاران کا علاقہ مکہ مکرمہ ہے، جہاں حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو بسانا شروع کیا۔تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ عرب میں یہودیوں کی آبادکاری کا سب سے تین بڑا سبب پیشین گوئیوں پر یقین تھا کہ نبی آخر الزمان کا ظہور قریب ہے۔ وہ اگرچہ علم رکھتے تھے کہ یہ عظیم رسول نسلِ ابراہیمی سے ہوں گے، لیکن اس بات سے بے خبر تھے کہ نبوت اسماعیل کی نسل میں ہوگی، نہ کہ اسحاق کی۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ جیسے قبائل نبی کی آمد کا انتظار کرتے رہے تاکہ جب وہ ظاہر ہوں تو ان پر ایمان لا کر فتح حاصل کریں۔یہ خیال صرف یہود تک محدود نہ تھا، عیسائی کتابوں میں بھی نئے رہنما کی بشارت موجود تھی۔ لیکن جب نبوت کی حقیقت محمد ﷺ کے ظہور سے سامنے آئی تو یہودی علماء میں حسد اُبھر آیا۔ انہوں نے ہمیشہ سوچا کہ نبوت کا دروازہ بنی اسحاق کے لیے کھلا رہے گا، مگر جب یہ سچائی سامنے آئی کہ یہ مقام نسلِ اسماعیل کو دیا گیا، تو ان کا حسد اور تکبر بڑھ گیا، جس نے انہیں حق کے انکار کی طرف مائل کیا۔
2. عرب شعراء کے قصائد میں نبی آخرالزمان کا تذکرہ بھی ہونے لگا تھا: عرب کے شعری افق پر اُس عہد میں بھی نبیِ آخرالزّمان کی آمد کا سرگوشیوں بھرا تذکرہ ہونے لگا تھا۔ اہلِ عرب اگرچہ اپنے عقائد میں بت پرستی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، مگر ان کے دلوں میں ابراہیمی وراثت کی ایک ہلکی سی لو اب بھی جل رہی تھی۔ حج، عمرہ اور قربانی جیسے اعمال اسی موروثی نسبت کی خاموش گواہی دیتے تھے۔ عرب شعرا کے قصائد میں ”نبیِ آخرالزّمان“ کا جو ذکر ملتا ہے—خصوصاً امیّہ کے اشعار میں —وہ اس بات کا اشاریہ تھا کہ صحرا کی وسعتوں میں ایک عظیم پیغامبر کے آنے کی امید دھڑکتی رہتی تھی؛ ایک ایسی امید جو وقت کے چہرے پر صبحِ نو کا اجالا پھیلانے والی تھی۔
3. اصحابِ فیل کا واقعہ، جو ولادتِ رسول ﷺ سے ذرا پہلے رونما ہوا، عرب کی تاریخ میں ایک روح پرور تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔ یمن پر حبشی اقتدار، ابرہہ کی مذہبی تعصّب سے بھری خواہش، اور کعبہ کے تقدّس کے مقابل ایک مصنوعی عظمت کھڑی کرنے کی ناکام کوشش—یہ سب ایک پس منظر بناتے ہیں جس سے اس واقعے کی گہرائی کھُلتی ہے۔ ابرہہ اپنی طاقت کے غرور اور ہاتھیوں سے لیس لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھا، مگر عبدالمطلب کا استغنا اور یہ جملہ کہ“اللہ اپنے گھر کا خود نگہبان ہے”ایک ابدی سچائی کی مانند آج بھی دلوں میں گونجتا ہے۔ قریش پہاڑوں پر جا بیٹھے، اور پھر وہ منظر آیا جسے سور? فیل نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا—آسمان سے اُڑتے پرندے، سنگریزوں کی بارش، اور ایک لشکر کا ریزہ ریزہ انجام۔ عام الفیل، جو نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا سال بھی ہے، عرب کے حافظے میں صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اس اعلان کی پہلی کرن ہے کہ اب دنیا ایک عظیم ترین پیغامبر کے استقبال کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
4. عبدالمطلب کی نذر عبد اللہ کے بچ نکلنے کا واقعہ: عبدالمطلب کی نذر کا قصہ قریش کی تاریخ میں ایک لطیف روحانی رنگ بھرتا ہے۔ جب ان کے بیٹوں کی تعداد پوری ہوئی تو قرعہ اندازی میں عبداللہ کا نام نکل آیا، مگر قریش کے دل اس فیصلے پر کانپ اٹھے۔ آخرکار سو اونٹوں کو قرعے میں شامل کیا گیا، اور یوں عبداللہ کی جان بچ گئی—اس بات کا اشارہ کہ نبوت کی وہ پاکیزہ نسل آغاز ہی سے ربّانی حفاظت میں تھی۔

Related Articles

Back to top button