سرد موسم اور احساسِ ذمہ داری

ریاستِ جموں و کشمیر کی تاریخ قربانیوں، صبر اور استقامت کی وہ داستان ہے جس کے ہر باب پر لہو کے چراغ جلتے ہیں۔ تقسیمِ برصغیر کے وقت جب ریاست کے عوام کی رائے کو پسِ پشت ڈال کر بھارت نے ڈوگرہ سامراج اور ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں ان کی تقدیر گروی رکھی، تب سے ظلم و جبر کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
بھارت نے ریاست کے ایک بڑے حصے پر ناجائز قبضہ جما کر لاکھوں کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت سے محروم کر رکھا ہے۔ 6 نومبر 1947 تک ڈھائی لاکھ سے زائد مسلمان شہید کیے گئے، جبکہ حالیہ 37 برسوں میں ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ چھیالیس ہزار سے زیادہ گھرانے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ آج یہی مہاجرین آزاد جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں بے یقینی، محرومی اور سست حکومتی رویوں کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔
وہ بزرگ جنہوں نے آزادی کے خواب دل میں لیے ہجرت کی تھی، اب ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں۔ اُن کے بیٹے بڑھاپے میں داخل ہو چکے ہیں اور اِن کے بچے جوانی کی دہلیز پار کر رہے ہیں۔ نئی نسل اب بھی عارضی چھتوں تلے پرورش پا رہی ہے۔ یہ لوگ یہاں مستقل رہائش کے ارادے سے نہیں آئے تھے، مگر ریاستی بے حسی نے انہیں اسی حال پر چھوڑ دیا ہے۔ سیکڑوں خاندان کرایوں کے گھروں میں رہائش پذیر ہیں اور کئی کئی ماہ ان کے پاس کرایہ دینے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ گزارہ الاونس میں اضافہ ایک خواب بن چکا ہے۔ مہاجرین کو مزید امیدیں دلانے کے بجائے ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ ان کی مستقل آبادکاری کو صرف ہمدردی نہیں بلکہ قومی ذمہ داری سمجھا جائے۔
فیز ون کے تحت 750 گھروں کی تعمیر کے لیے فنڈز 2022 سے موجود ہیں، مگر افسوس کہ تین سال گزرنے کے باوجود اب تک چالیس گھر بھی مکمل نہیں کیے جا سکے۔ اگر یہی رفتار برقرار رہی تو بیس سال میں بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو پائے گا۔ 750 گھروں کی تعمیر کے بعد نئے فیز کا آغاز بھی ہونا ہے، مگر جس طرح سست روی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اس سے واضح ہے کہ مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
یہ مسائل صرف چھت کے نہیں بلکہ تعلیم، صحت اور روزگار کے بھی ہیں۔ بیشتر مہاجر کیمپوں میں نہ تو سرکاری اسکول موجود ہیں، نہ ہی صحت کی بنیادی سہولیات میسر ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں فیسیں ادا کر کے بچوں کو پڑھانا اب نہایت مشکل ہو چکا ہے۔ دو تین کیمپوں کے علاوہ کسی بھی جگہ پیشہ ورانہ تربیت یا ہنر مندی کے مراکز قائم نہیں۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر بڑے کیمپ میں اسکول، ڈسپنسری اور تربیتی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ یہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔
یہ مہاجر محض امداد کے محتاج نہیں بلکہ خود انحصاری کے خواہاں ہیں۔ انہیں کھیلوں میں مشغول کرنے سے زیادہ ہنر مندی، تعلیم اور روزگار کے مواقع درکار ہیں۔ ان میں سے بیشتر نوجوان محنتی، باشعور اور باصلاحیت ہیں، مگر ریاستی عدم توجہی نے ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ اگر یہی نوجوان فنی تربیت، تعلیم اور روزگار کے مواقع حاصل کر سکیں تو یہی مہاجر معاشی خودکفالت کی روشن مثال بن سکتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے محدود نشستوں پر اعلیٰ تعلیم کے لیے جو مواقع فراہم کیے گئے ہیں، ان پر مہاجرین ہمیشہ شکر گزار رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تاہم وقت کے ساتھ تعلیم کے اخراجات بڑھنے سے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میٹرک تک بچوں کو پڑھانا بھی مشکل بنتا جا رہا ہے۔ آج کے دور میں تعلیم کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ جن کے پاس وسائل ہیں وہ تو کچھ کر لیں گے، مگر اکثریت مسائل کے گرداب میں پھنسی رہے گی۔ آزاد کشمیر میں کوٹہ سسٹم ختم ہونے کے بعد طلبہ شدید احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ روزگار کے مواقع پہلے ہی محدود تھے، اب امید کی کرن بھی مدھم پڑتی جا رہی ہے۔
حکومتِ آزاد جموں و کشمیر اگر مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکتی تو کم از کم ان مہاجرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی عملی کوشش تو کر سکتی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک بزرگ مہاجر کے خواب دفن ہو رہے ہیں۔ اگر یہی بے حسی اور سست روی برقرار رہی تو آنے والی نسلیں ہم سب کو معاف نہیں کریں گی۔
سرد موسم کی یہ شام ہمیں صرف لحاف اور ہیٹر نہیں بلکہ احساسِ ذمہ داری کی گرمی بھی مانگتی ہے۔ حکومت کو اب جاگنا ہوگا، ورنہ آنے والی تاریخ ہمارے کردار پر سوال اٹھائے گی۔




