کالمز

تدبر و تفکر

ازقلم: چوہدری محمد ابراہیم ضیاء، ریٹائرڈ چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر

انسانی ارتقاء کے ساتھ ہی معاشرے میں انسان نے منظم اور بہتر زندگی گزارنے کے طریقے اختیار کئے گو کہ انسان کی ہدایت کے لئے سب سے بہتر اور افضل نظام اللہ تعالیٰ کا دیا ہوامکمل ضابطہ حیات ”دین اسلام“ ہے تاہم رنگ و نسل و مذہب سے بالاترمنظم معاشرتی زندگی گزارنے کے لئے ریاستوں کا وجود عمل میں آیا اور دنیا میں تقریباً سبھی ریاستوں کی بنیاد اور وجود، اس ریاست کی عوام اور ریاست کے مابین ایک معاہدہ کی صورت میں عمل میں آیاجسے عرف عام میں کسی قوم یاریاست کا”آئین یا دستور“ کہا جاتا ہے۔
دستور ایک طرح سے رعایا، ریاست، ریاستی اداروں اور دنیا میں دوسری ریاستوں اور معاشروں کے ساتھ تعلق و طرز زندگی اپنانے کا ایک تحریری معاہدہ ہوتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیرکا علاقہ بھی اپنا ایک دستور ”آزاد جموں و کشمیر عبوری دستور 1974“ کے دستاویز کی صورت میں رکھتا ہے۔ اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ دستاویزآزاد کشمیر کے باسیوں اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی حکومت، حکومت پاکستان اور ریاست پاکستان کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ کی بنیاد ساری ریاست جموں و کشمیر کی عوام کے لئے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر کی عمومی فلاح و بہبود، معاشی و معاشرتی ترقی اوراس کے متعلق امور کو آئین میں درج اساسی اصول ہا پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اداروں کی تشکیل وجود میں آئی اور ان کے دائرہ کار اور اختیار کا تعین کیا گیا۔
اس آئین میں آرٹیکل 3-Aسے لے کر آرٹیکل3-Jتک اساسی پالیسی اصول درج ہیں جن کے مطابق یہاں بسنے والے لوگو ں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا ماحول فراہم کرنا، مقامی حکومتوں اور اداروں کو مضبوط کرنا، ہر قسم کے تعصبات کا خاتمہ، خواتین کی امور زندگی میں بھرپور شرکت، خاندان اور اقلیتوں کا تحفظ، سماجی انصاف، پسماندہ طبقات کی تعلیم اور معاشرتی بہتری کے لئے خصوصی اقدامات جیسے اصول درج ہیں۔ اس طرح آئین میں بنیادی حقوق کی بھی فہرست دی گئی ہے۔ اگر آئین کی روح اور منشاء کا جائزہ لیا جائے توآئین پر عمل درآمد کی سب سے بڑی ذمہ داری آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی پر عائد ہوتی ہے جو آئین میں درج اساسی پالیسی اصولوں کے مطابق قانون سازی کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ حکومت کی کارکردگی کی مکمل نگرانی اور جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس طرح حکومتی وسائل، خزانہ عامرہ (Consolidated Fund)کے مصرف کی ترجیحات کا تعین کرنا بھی قانون ساز اسمبلی کی ذمہ داری ہے اور اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی بھی ادارہ وسائل خرچ نہیں کر سکتااور آئین میں قانون ساز اسمبلی کی کارکردگی کو موئثر بنانے کے لئے یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ ہر سال کم ازکم 60ایام کار اسمبلی کا اجلاس منعقد ہو گا۔
اسی طرح آرٹیکل 3(الف)کے تحت صدر ریاست کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ ہر سال کی تفصیلی رپورٹ مرتب کروائیں گے کہ آئین میں درج بنیادی پالیسی اصولوں پر کس قدر عمل درآمد کیا گیااور اس رپورٹ پر اسمبلی میں تفصیلی مباحثہ ہو گا۔
اگر ہم سرسری جائزہ لیں تواسمبلی اور حکومت کی کارکردگی آئین کے بنیادی اصولوں سے صریحاً انحراف آئینی ذمہ داریوں سے غفلت کا ارتکاب پایا جاتاہے جس کا فطرتی نتیجہ ہے کہ کچھ عرصہ سے آزاد کشمیر کی عوام نا صرف ایک بہتر طرز حکومت سے محروم ہے بلکہ دن بدن بدانتظامی اور مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور اس کے نتیجہ میں عوام کے اندر ایک انتقامی جذبہ اور لاوا پک رہا ہے جو خدا نخواستہ کسی بڑے حادثے یا سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔
اگر ہم آئین کی بڑی بڑی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کریں توسب سے بڑی عملًا ایک آزاد اسمبلی کا وجود معدوم ہے کیونکہ ساری جماعتیں، سارے اراکین اسمبلی حکومت اورانتظامیہ کا حصہ ہیں اور آئین کی منشاء کے مطابق وزیراعظم اور حکومت قانون ساز اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہیں۔ جب سبھی حکومت میں شامل ہو جائیں تو جوابدہی کون کرے گا۔ اس طرح عملًا آزاد جموں و کشمیر کے سیاست دانوں اور پالیسی ساز ذمہ داروں نے قانون ساز اسمبلی کے وجود کو اس کی آئینی روح و منشاء سے محروم کر دیا ہے اور صرف حکومتی جھنڈی بردار ایک طبقہ معرض وجود میں آ گیا ہے۔
توآئین کی منشاء کے مطابق صدر ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سال آئین میں درج بنیادی اصول ہا آف پالیسی کی رپورٹ مرتب کر کے اسمبلی میں بحث کروائیں تاکہ رعایا کو معلوم ہو کے ریاست میں آئین پر کس قدر عمل ہوامگر بد قسمتی سے آئین کے نفاذسے تادم تحریرصدر اپنی اس آئینی ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہے ہیں، جو آئین کی خلاف ورزی اور ایک طرح سے ایک آئینی معاہدے جو عوام اور ریاست کی بنیادی طے شدہ اساسی اصولوں کی صریحاً تکذیب ہے۔
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اندر جو رسمی اجلاس یا محض دکھلاوے کے لئے بعض اہم مواقع پر پاکستان سے آئی شخصیات کے خطاب یا محض قرار دادیں پیش کرنے کے لئے منعقد ہوئے ان کے علاوہ کوئی ایک اجلاس بھی شاید ایسا نہ ہوا ہو جس میں آئین میں درج اساسی اصولوں پر عمل درآمد، بنیادی حقوق کی فراہمی پر عمل درآمد، لوگوں کو فلاح وبہبود، نظام کی بہتری کے معاملات کو زیر بحث لایا ہو، ان پر کوئی قانون سازی یا پالیسی وضع کی گئی ہو۔ اسی طرح اداروں یا حکومتی کار کردگی میں بہتری کے اقدامات بصورت قانون سازی عمل میں لائے گئے ہوں۔ایک لمبی تفصیل ہے جو قانون ساز اسمبلی کے اراکین اور حکومت کی آئین سے انحراف اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس لئے بہت تفصیل میں جانے سے وقت ضائع کرنا مقصود نہیں ہے بس حاصل بحث یہ ہے کہ جس صورتحال کا آج آزاد خطہ کے عوام اور اداروں کو سامنا ہے یہ صرف اور صرف آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کی آئین سے انحراف کا نتیجہ ہے۔
انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا قومی وقار بری طرح مجروح ہو رہا ہے، ایک طرف جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران ہیں جو عوامی حقوق کے مطالبات کی ایک فہرست کے ساتھ تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ ان کے مطالبات سے ما سوائے چند اہم آئینی معاملات جو تحریک آزادی کا تاریخی پس منظر رکھتے ہیں ان کو متنازعہ بنانے کے علاوہ باقی معاملات سے اختلاف نہ ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران جو زبان ذاتی عزت نفس کو مجروح کرنے اور گالی گلوچ والی زبان سیاسی راہنماؤں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح سیاسی راہنماؤں کے لئے (ڈنگر) جیسے الفاظ کا استعمال کسی طور پر بھی مناسب نہ ہے۔ ایک مہذب اور شائستہ قوم کے افراد ہوتے ہوئے ہمیں تمام اختلافات کے باوجود تہذیب او ر اخلاق کا دامن ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے۔
دوسری طرف اسمبلی ممبران جنہوں نے قوم کی راہنمائی کرنی ہوتی ہے، جس میں قوم کی اخلاقی تربیت بھی شامل ہوتی ہے اس اپنی ذمہ داری سے صریحاً غفلت برتتے ہوئے جس طرح کی بازاری زبان اور گالی گلوچ کی زبان کا استعمال کر رہے ہیں وہ بھی انتہائی قابل افسوس ہے۔
حالات کا تقاضا ہے کہ ہر دو فریقین اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کریں اور اپنے اس طرز عمل میں شائستگی اختیار کرتے ہوئے قوم کی اخلاقی تربیت کے لئے شائستہ زبان کا استعمال کریں۔
بظاہر اس وقت آزاد خطہ میں سیاسی جماعتیں، قائدین اور ممبران اسمبلی ایک طرف اور عوامی ایکشن کمیٹی دوسری طرف دو متحارب دھڑے میدان میں موجود ہیں۔ ایکشن کمیٹی نے 29ستمبر کو ہڑتال کا پروگرام طے کیا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں کے بعد سیاسی جماعتوں نے جلسوں کا انعقاد شروع کر رکھاہے۔
مگر حیرت اس بات کی ہے کہ ہم آئین کی روح اور منشاء کے مطابق جو مسلمہ عالمی اصولوں کے مطابق تمام مسائل کے حل کے لئے ریاست کا جو ادارہ ہے وہ سرے سے غیر فحال ہے۔ میری رائے میں ان تمام مسائل کے حل کا ایک ہی آئین کی رو ح کے مطابق ایک ہی ادارہ ذمہ دارہے او ر وہ ہے آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی۔
میری رائے میں ان حالات میں وزیراعظم، حکومتی وزراء اور ممبران اسمبلی کا جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مد مقابل جلسوں کا انعقادفطرتاً ایک رد عمل کے موجب بننے کے ساتھ لایعنی عمل ہے جو اس کشیدہ صورتحال میں مزید خرابی کا باعث بن سکتا ہے اور اس سے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ علاوہ ازیں جو قومی مقاصد ہیں اور اس عبوری حکومت کی بنیاد ی ذمہ داری ہیں اس سے بھی انحراف کے مترادف عمل ہے جو کسی بھی طریقے سے ایک ذمہ دار حکومت یا اراکین اسمبلی کو زیب نہیں دیتا۔
آزاد جموں و کشمیر کی عبوری حکومت جس کی اساس اعلان حکومت 24اکتوبر 1947ہے جس کے تحت یہ عبوری حکومت اور انتظامیہ پوری ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی ترجمانی کی ذمہ دار ہے اور اس کے مطابق تحریک آزادی، حق خودارادیت کے حصول کے لئے موئثر لائحہ عمل مرتب کرنے اور اس پر عمل درآمد کی پابند ہے مگر بدقسمتی سے اس حوالہ سے سرے سے نا ہی کوئی مربوط پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی جار رہی ہے۔ اس طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح اور منشاء کے مطابق اس حکومت کی ذمہ داری آزاد خطہ میں لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کی فلاح و بہبود کے لئے موئثر اقدامات کرنا ہے، بظاہر اس ذمہ داری میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی بے مثال اور تاریخی جدوجہد، آزادی کے حصول کے لئے قربانیوں کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس صورتحال سے ہمارا ازلی دشمن فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں پر ایک نظریاتی انتشار پھیلانے اور ریاست پاکستان اور قومی اداروں سے دوری پیدا کرنے کی منظم تحریک اور پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ موجودہ صورتحال میں آزاد جموں و کشمیر کی ناعاقبت اندیش قیادت کی پیدا کردہ صورتحال ہمارے دشمن کے لئے ممد ومعاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس لئے حالات کا تقاضا ہے کہ ان شدید خطرات کا ادراک کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اورذاتی مفادات، ضد اور انا سے باہر نکل کر آئین کی منشاء کو تحریک آزادی کشمیر کی روح اور منشاء کے مطابق درست سمت کا تعین کرتے ہوئے عملی اقدامات وقت کا تقا ضا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آئین کے مطابق سب سے بڑی ذمہ داری عوام کے منتخب نمائندوں، اراکین اسمبلی پر عائد ہوتی ہے اور یہی ادارہ تمام فیصلے کرنے اور آئین پر عمل کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے حالات کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم، صدر ریاست، سپیکر اسمبلی و اراکین اسمبلی اور قائدین اپنی آئینی ذمہ داریوں کو احساس کرتے ہوئے قانون ساز اسمبلی کا ایک بھرپور اجلاس منعقد کریں جس میں باالخصوص جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور تمام جائز مطالبات کو حاصل شدہ وسائل کے مطابق فوری طور پر حل کیا جائے۔ جن مطالبات کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے ان کے لئے قانون سازی عمل میں لاتے ہوئے اور آئین میں درج اساسی اصول آف پالیسی اور بنیادی حقوق کی روح اور منشاء کے مطابق قومی وسائل کے استعمال، عوام کی فلاح و بہبود اور پسماندہ طبقات کی بہتری کے لئے استعمال کئے جائیں۔
تمام تر صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی کارکردگی تسلی بخش نہ ہے جو اصلاح احوال کی متقاضی ہے اس لئے اسے بھی اسمبلی میں زیر بحث لا کر اداروں کی کارکردگی کو موئثر بنانے کے لئے ان کی تنظیم نو کے لئے موئثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ بس یہی واحد آئینی راستہ اور مسائل کے حل کا دیرپا حل ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر قانون ساز اسمبلی اور اراکین اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے تو وہ عوام کے حق نمائندگی سے محروم تصور ہوں گے اور اس صورت میں انہیں مستعفی ہو کر عوام کو اپنے حق نمائندگی کے انتخاب کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ ریاست، عوام اور اداروں سب کی بہتری کا واحد حل آئین پر اس کی روح اور منشاء کے مطابق عمل درآمد پر مضمر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

Back to top button