
چند دن قبل یہ خبر بہت منظم انداز میں پھیلائی گئی کہ جموں میں انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ مار کر اسلحہ اور نہ جانے کونسی کونسی ممنوعہ اشیا برآمد کی گئی ہیں۔اس کے ساتھ ہی اخبار کی خاتون ایڈیٹر انورادھا بھسین جموال کے خلاف ایک ایف آئی بھی درج کرلی گئی۔دلچسپ بات یہ کہ کشمیر ٹائمز کی اشاعت تین سال قبل بند ہو چکی ہے اور اس کی ایڈیٹر انورداھا بھسین جموال کئی برس قبل امریکہ منتقل ہو چکی ہیں۔کشمیر ٹائمز کی بندش اور انورادھا بھسین کی امریکہ منتقلی دونوں کا تعلق ان کے اخبار کی پالیسی سے ہے جس سے بھارت ہر دور میں نالاں رہا ہے۔کشمیر ٹائمز اب امریکہ سے آن لائن شائع ہوتا ہے۔یوں جموں میں تالہ بند دفتر پر چھاپہ اور اسلحہ وغیرہ کی برآمدگی اور پھر امریکہ میں مقیم انورادھا بھسین کے خلاف مقدمہ کا اندراج ایک سکرپٹ کی ڈرامائی تشکیل کے سوا کچھ اور معلوم نہیں ہوتا۔کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ اور انورادھا بھسین کے خلاف مقدمہ کا اندراج کئی عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع بنا اور مجموعی طور پر اس الزام کو بھونڈا ہی ثابت کیا گیا۔بعض مبصرین کا خیال تھا کہ بھارتی حکومت اس اقدام کے ذریعے کشمیر میں دم توڑتی سسکتی اور کراہتی صحافت کا قافیہ مزید تنگ کرنا چاہتی ہے۔حقیقت میں جموں وکشمیر کی سرزمین اب صحافت کے لئے قبرستان کا روپ دھار چکی ہے۔جہاں چیختی چنگھاڑتی دہاڑتی آوازیں ایک مقام پر پہنچ کر یوں خاموش ہوجاتی ہیں کہ جیسے کبھی کوئی آواز سنی ہی نہ گئی ہو۔کشمیر کے نامی گرامی صحافی بے کاری اور گمنامی کی وادیوں میں گم ہو چکے ہیں۔رائے ساز اخبار ات مودی نامہ بن کر رہ گئے ہیں جن کے سرورق پر مودی کی مخصوص پوز بناتی ہوئی تصویریں گویا کہ لازمی ہوتی ہے۔اس سے بھارتی حکمرانوں کا جی نہیں بھرا اور وہ کئی صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے اور کئی اخبارات اور نیوز پورٹلز کو بند کرنے کے بعد اب بچی کھچی آوازوں کو بھی خاموش کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔انورادھا بھسین ریاست جموں وکشمیر کی صحافت میں ایک ادارے کی حیثیت رکھنے والے صحافی آنجہانی وید بھسین کی بیٹی ہیں۔ بھارت کی سیاست جب تک بی جے پی زدہ نہیں تھی اس وقت تک اس کثیر القومی اور کثیر الثقافتی ملک میں سچ اور انصاف کی آوازیں بلاتخصیص مذہب اور قومیت بلند ہوتی تھیں۔برصغیر کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کی سیاست میں ایسے لاتعداد کشمیری پنڈت جو مذہب کے لحاظ سے ہندو تھے کشمیری مسلمانوں کی اجتماعی سوچ سے ہم آہنگ ہو کر اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہئے۔ان میں پنڈت پریم ناتھ بزاز کا نام بہت اوراوپر اور نمایاں تھا۔اسی طرح جموں سے ہند ومذہب سے تعلق رکھنے والے بہت سے نمایاں نام بھی یا تو اسی انداز سے سوچتے تھے یا ان کی تان پاکستان اور بھارت سے الگ ایک آزادریاست پر ٹوٹتی تھی۔یہ وہ سیاسی کلاس تھی جو تعصب کو دل ودماغ پر حاوی کئے بغیر جو سوچتی اس کا برملا اظہار کرنے سے گریز نہ کرتی۔ایسے ہی ناموں میں ایک جموں سے تعلق رکھنے والے دانشور سیاسی کارکن اور شعلہ بیاں مقرر وید بھیسن کا ہے۔وید بھیسن ایک جموں سے تعلق رکھنے والے ہندو تھے مگر انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز شیخ محمد عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس سے کیا اور اس جماعت کے یوتھ بورڈ کے سربراہ کے طور پر کیا۔بعد میں صحافت سے وابستہ ہوئے اور ساٹھ کی دہائی میں جموں سے انگریزی اخبار ”کشمیر ٹائمز“ شائع کرنا شروع کیا۔کشمیر ٹائمز کشمیری سماج کی سیاسی ضرورتوں اور سوچ کا سب سے بڑا ترجمان اور شارح بن کر سامنے آیا۔یہی وجہ یہ کہ اخبار ہندو اکثریتی جموں کی بجائے مسلم اکثریتی وادیئ کشمیر میں زیاد ہ مقبول رہا۔اس اخبار نے وادی میں بھی صحافت کی ایسی نرسری تیار کی جو آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں صحافت میں اپنا لوہا منوا رہی ہے۔معروف کشمیری صحافی افتخار گیلانی بھی ان صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے وید بھیسن کے کشمیر ٹائمز سے صحافت کا سفر بھی شروع کیا اور عملی صحافت کی تربیت بھی حاصل کی۔انہوں نے ”دی وائر“ میں کشمیر ٹائمز پر پڑنے والے چھاپے پر ایک مضمون میں کشمیر ٹائمز اور آنجہانی وید بھسین کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے وید بھسین کو درویش صفت کشمیری قرار دیا۔وید بھسین بلاشبہ کشمیر میں حق وصداقت کے بے مثال سپاہی تھے۔2005میں سری نگر میں منعقدہ انٹرا کشمیری ڈائیلاگ میں شرکت کے لئے جموں سے سری نگر تک ہمیں ان کے ساتھ سفر کرنے اور پھر کئی دن تک کانفرنس میں ایک ساتھ رہنے اور سننے کا موقع ملا۔اس سمینار میں انہوں نے اتنی پرجوش تقریر کی کہ ان پر حریت کانفرنس کے کسی لیڈر کی تقریر کا گمان گزرتا تھا۔وہ کشمیر میں بھارتی پالیسیوں کے اعلانیہ اور کڑے ناقد تھے اور کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے کھلے حامی تھے۔کئی برس کی بندش کے بعد اب کشمیر ٹائمز کا ڈیجیٹل ایڈیشن امریکہ سے شائع ہونے لگا تو یوں لگتا ہے کہ یہ بھی بھارت کے حکمرانوں کا گوارا نہ ہوا اور انہوں نے اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے مزید اوچھے ہتھکنڈوں کا سہارا لینا شروع کیاہے۔بھارت کی پالیسی یہ لگتی ہے کہ کشمیری سماج کو دم گھوٹ کرمار دیا جائے۔نوے کی دہائی میں بھی جب کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زوروں پر تھیں اور کشمیر ٹائمز اس پالیسی کا کڑا ناقد تھا انتہا پسند ہندوتنظیموں کے ذریعے کشمیر ٹائمز کے دفتر پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرائی گئی تھی۔یوں اس اخبار اور اس کے مالکان کے خلاف بھارتی اداروں کا غصہ طویل پس منظر رکھتا ہے۔یہ نفرت اور مخاصمت ابھی بھی جاری ہے حالانکہ اب اخبار کا زمین پر اپنے تالہ بند دفتر کے دروازے پر مدھم ہوتے ہوئے لفظوں کے حامل بورڈ کے سوا کوئی وجود نہیں۔اس کے باوجود بھارتی حکمران سچ کی ڈوبی ہوئی اورکمزور سی آواز کو سننے کی تاب بھی نہیں رکھتے۔




