بھارت کا پاکسان مخالف بیانیہ۔۔۔ قومی سلامتی یا انتخابی حکمت عملی؟؟؟

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ جذبات، تاریخ، تنازعات اور سیاست کے ایک ایسے پیچیدہ جال میں الجھے رہے ہیں جہاں قومی سلامتی کا بیانیہ اور عوامی جذبات کا سیاست میں استعمال اکثر ایک ہی لکیر پر چلتے ہیں۔ یہ سوال کہ بھارتی پالیسی واقعی قومی سکیورٹی کے تقاضوں کے تحت چلائی جاتی ہے یا اسے عوامی جذبات بھڑکانے کیلئے محض سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے؟بظاہر سادہ ہے مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ تہہ دار ہے۔ اس کا جائزہ صرف پالیسی کے ظاہری پہلو سے نہیں بلکہ اندرونی سیاسی ضرورتوں، میڈیا کے کردار، عسکری بیانیے اور خطے کی بدلتی حکمتِ عملیوں کے تناظر میں بھی لینا پڑتا ہے۔بھارت کی داخلی سیاست گزشتہ دو دہائیوں میں جس تیزی سے بدلی ہے اُس نے پاکستان کے خلاف سخت مؤقف کو محض ایک سکیورٹی بیانیہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ووٹ لینے کی طاقتور سیاسی حکمتِ عملی میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھارتی حکمران جماعت خصوصاً بی جے پی نے پاکستان مخالف جذبات کو ایک ایسے مقبول نعرے کا درجہ دے دیا ہے جسے انتخابی مہمات میں بار بار استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نام لینا بھارت کے سیاسی ماحول میں ایک ایسی گرم لکڑی ہے جسے ذرا چھیڑ دو تو چنگاریاں لپک اٹھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی انتخابی جلسوں میں پاکستان کا تذکرہ اکثر داخلی مسائل جیسے بیروزگاری، مہنگائی یا معاشی بحران سے توجہ ہٹانے کا آسان ذریعہ بن جاتا ہے۔اس بیانیے کی جڑیں صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ وہ میڈیا کی طاقت سے بھی گہری جڑی ہوئی ہیں۔ بھارتی مین اسٹریم میڈیا، جسے اکثر”گودی میڈیا“ کہا جاتا ہے پاکستان مخالف جذبات کو مسلسل ہوا دیتا ہے۔ ٹی وی ڈیبیٹس، ہیڈ لائنز اور پروپیگنڈا پر مبنی خبریں ایک ایسی فضا بناتی ہیں جہاں پاکستان کو ایک مستقل خطرہ دکھایا جاتا ہے۔ اس طرح عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر پختہ ہو جاتا ہے کہ سخت پالیسیاں دراصل قومی سکیورٹی کا ناگزیر حصہ ہیں چاہے زمینی حقیقت اس سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ میڈیا کا یہ کردار نہ صرف سیاسی بیانیے کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ہر معمولی سرحدی جھڑپ کو بھی شدید عسکری کشیدگی کا روپ دے کر پیش کرتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے بارے میں نفرت سیاسی فائدے کیلئے خام مال بن جاتی ہے۔اس کے باوجود بھارتی پالیسی کو صرف سیاسی نعرہ قرار دینا بھی پوری تصویر کو بیان نہیں کرتا۔ بھارت دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت اور خطے کی نمایاں فوجی قوت ہے۔ اس حیثیت میں وہ اپنی علاقائی حکمت عملی کو چین کے بڑھتے ہوئے اثرات، بحر ہند کی اسٹریٹجک اہمیت اور عالمی طاقتوں کی کشمکش کے تناظر میں بھی دیکھتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں سکیورٹی ڈائنامکس ایسا ماحول بنا چکے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بھارت کے دفاعی منصوبہ ساز صرف سیاسی ہتھیار نہیں بلکہ مجموعی اسٹریٹجک فریم ورک کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ، لائن آف کنٹرول کی کشیدگی، سرحدوں پر عسکری نقل و حرکت، دہشت گردی کے واقعات اور پالیسی ساز اداروں کے خدشات یہ سب ایسے عوامل ہیں جو بھارتی پالیسی کو محض انتخابی نعرے سے بڑھ کر ایک اسٹریٹجک حقیقت بناتے ہیں۔تاہم سکیورٹی کی آڑ میں سیاست کرنے کا رجحان بھی اتنا ہی واضح ہے۔ پلوامہ حملے اور بالاکوٹ واقعے نے دکھایا کہ کس طرح قومی سلامتی کے نام پر بیانیہ انتہائی سرعت سے انتخابی فائدے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی واقعے کی حقیقت پر تفصیلی تحقیق سے پہلے ہی میڈیا اور سیاستدانوں کی جانب سے جذبات کو اس قدر بھڑکا دیا جاتا ہے کہ عوام کا ردِعمل حکومتی مؤقف سے باہر سوچنے ہی نہیں دیتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سکیورٹی پالیسی اور سیاسی نعرہ ایک دوسرے میں مکمل طور پر مدغم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے بھارتی پالیسی کی یہ دوہری نوعیت نہ صرف خطے میں کشیدگی بڑھاتی ہے بلکہ سفارتکاری کے دروازے بھی بار بار بند کرتی ہے۔ اگر پاکستان کو ہمیشہ دشمن بنا کر پیش کیا جائے گا تو مذاکرات کیلئے وہ فضا کبھی ہی نہیں بن سکے گی جو دو ایٹمی ممالک کے درمیان ناگزیر ہے۔ بھارت اگر واقعی قومی سکیورٹی کا مستحکم نظام چاہتا ہے تو اس کیلئے پاکستان مخالف نعرے بازی کو کم کرنا اور خطے میں تنازع کے بجائے معاشی تعاون کے ایجنڈے کو بڑھانا ضروری ہے مگر فی الحال بھارتی سیاسی بیانیے میں ایسے کسی بدلاؤ کے آثار نمایاں نہیں۔اصل مسئلہ یہی ہے کہ بھارت کی پالیسی میں قومی سلامتی کے حقیقی خدشات بھی ہیں اور سیاسی مفادات کیلئے عوامی جذبات بھڑکانے کا عنصر بھی۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو بھی نہیں سکتے کیونکہ بھارتی سیاست انگریزی دور سے لے کر آج تک پاکستان کو اپنی داخلی سیاست کا حصہ بنائے رکھتی آئی ہے۔ یوں بھارتی حکمت عملی دراصل ایک”مکسڈ ماڈل“ہے۔ آدھی قومی سلامتی، آدھی سیاست۔ آدھا اسٹریٹجک مفاد، آدھا جذباتی بیانیہ۔اسی لیے یہ سوال کہ بھارتی پالیسی واقعی سکیورٹی کیلئے ہے یا محض سیاسی نعرہ؟ اس کا ایک سادہ جواب ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں عناصر موجود ہیں اور یہی امتزاج وہ مستقل تناؤ پیدا کرتا ہے جو جنوبی ایشیا کی سیاست کو دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی امن کی راہ پر نہیں آنے دیتا۔




