کالمز

سیاسی گروپ بندی اور نظام

محبوب چوہدری

گروپ بندی سیاست میں ہو یا مذہب میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہے بدقسمتی سے آج ہماری عوام بھی اس کا شکار ہو چکی ہے اور ہم بجائے خود کو ایک قوم کی حیثیت سے منوانے کے مختلف سیاسی جماعتوں اور لیڈران کے اعلی کار بن چکے ہیں وطن عزیز پاکستان کو شروع دن سے ہی انٹرنیشنل قوتوں نے قبول نہیں کیا اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کو ہر دور میں دشمن قوتوں نے مختلف طریقوں سے کمزور کر کے ختم کرنے کی سازشیں جاری رکھی جب کہ ہماری سادہ لو عوام ہی دشمن کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہوئے کبھی مختلف مذہبی فرقوں کی اڑ میں اور کبھی سیاسی جماعتوں کے آپس میں تناؤ کی صورت میں بیرونی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف رہے ہمارے بعد معرض وجود میں انے والے عرب و یورپی ممالک اس وقت ترکی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں اور ہمارا ازلی دشمن بھارت جو کہ شروع سے ہی ہم سے کوسوں پیچھے تھا اور ہماری کرنسی بھی ان سے کہیں گنا بہتر تھی لیکن آج صورتحال یہ ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی ہو یا میڈیکل فیلڈ ہم سے بہت اگے نکل چکا ہے۔اگر کرنسی پر نظر دوڑائیں تو بھارت تو دور پاکستان سے علیحدہ ہونے والا چھوٹا سا ملک بنگلہ دیش بھی پاکستان سے بہت اگے نکل چکا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ ان ملکوں میں کرپشن کی روک تھام کے لیے بہترین قوانین ان پر عمل درامد اور بہترین جمہوری نظام رائج ہے۔ان ممالک میں جو بھی قانون سے ہٹ کر کام کرتا ہے چاہے وہ سیاسی شخصیات ہوں یا عسکری انہیں قانون کے مطابق سزا و جزا ہوتی ہے اس لیے ان ملکوں کا معاشی نظام بہتر طریقے سے چل رہا ہے۔لیکن پاکستان کا نظام اس کے برعکس ہے پاکستان میں نہ تو جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے نہ مضبوط عدالتی نظام پاکستان کے اس نظام کو چند مخصوص خاندانوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے ملک کی بھاگ دوڑ انہی جماعتوں کے افراد کے ہاتھوں میں ہے۔اور عوم ان کی کتپتلی بن چکی ہے۔وہ جب چاہیں اپنی مرضی کے مطابق پاکستان کے قوانین میں رد و بدل کر کے اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں۔باوجود اس کے پاکستانی عوام اج بھی انہی سیاسی جماعتوں یا خاندانوں کی بھیڑ بکریاں بنی ہوئی ہے کوئی کسی سیاسی جماعت کا جیالا اور کوئی کسی کا متوالا کوئی کسی کے شیر پر سوار اور کوئی کسی کا تیر چلا رہا ہے کوئی کسی کی سائیکل پر سوار پر سوار ہونے کی کوشش میں اور کوئی بلے سے شارٹ لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے گویا ہم کسی نہ کسی کے اگے بک چکے ہیں ہم اپنے وطن کے روشن مستقبل کے بجائے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے مفاد کے لیے کوشاں ہیں ہر کوئی اپنی جماعت اور اس کے لیڈر کا دفاع کرنے کے لیے اگے بڑھ رہا ہے اس کی بڑی وجہ ہماری عوام کا ضمیر مر چکا ہے اور ہم ازادی کی نعمت کے باوجود کسی نہ کسی سیاسی گروہ یا جماعت کے ذہنی غلام ہو کر رہ گئے ہیں ہمیں ہر روز ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں بھی نام نہاد سیاسی آقاؤں کے مفاد کی خاطر غلام اور لونڈیاں اپنے لیڈران کے اشاروں پر رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے اوپر مفاد پرست حکمران مسلط ہو جاتے ہیں اور اسی گروہ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بجائے اس کے ملک اور قوم کی خدمت کے ذاتی مقاصد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اقتدار کے اور پارٹی مفاد کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں ایسے حالات میں عوام کو چاہیے کہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذاتی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے بغیر کسی پارٹی مفاد کے اگر کوئی حکمران ملکی مفاد کے لیے کوئی عمل کرے تو اس کو سراہیں اور جو ایسا نہ کر سکے اسے ٹھوکر مار دینی چاہیے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے اپنی مخالف سیاسی جماعت کے ہر اچھے کام میں بھی کیڑے نکال کر اس پر تنقید شروع کر دی جاتی ہے جس کا مقصد صرف اس پارٹی کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور خود کو منظر عام پر لانا ہوتا ہے افسوس ہم اج بھی ایک قوم نہیں بن سکے

Related Articles

Back to top button