مظفرآباد

ہمیشہ مذاکرات کو فوقیت دی، چوہدری انوارالحق

مظفر آباد (محاسب نیوز‘پی آئی ڈی) وزیر اعظم آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا ہے کہ مطالبات آئین و قانون کے مطابق ہوں تو پھر حکومت نے ہمیشہ مذاکرات کو فوقیت دی ہے،پچھلے 77 سالوں میں آزاد کشمیر میں لا انفورسمنٹ ایجنسی کا کوئی تصور ہی قائم نہیں رکھا گیا، پولیس تو کمیونٹی پولیسنگ کی طرح کے کام کرتی ہے، ماضی میں کابینہ کی سطح پر ہم نے عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے اور پہلے دونوں مرتبہ مذاکرات بھی نتیجہ خیز ہوئے، اب بھی اگر وہ مذاکرات کرنا چاہیں تو حکومتیں تو کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں، لیکن جب آپ ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں گے، آپ نوجوانوں کے ہاتھوں میں تمبر کے ڈنڈے اور اس کے بعد اسلحہ دینے کی کوشش کریں گے تو پھر بات سیاسی عمل سے گزر کر لائاینڈ آرڈرسچویشن اور پھر اس سے آگے بڑھ کر دہشت پھیلانے کے زمرے میں چلی جاتی ہے،میں پس منظر، پیش منظر دونوں عوام کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا ایک پورا پس منظر ہے، ماضی میں نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کے احتجاج آہستہ آہستہ اس کمیٹی میں منتقل ہو گئے، آزاد کشمیر کے اندر 33حلقے ہیں، ان کا ایک ایک لاکھ ووٹر ہے، تقریباً لاکھ کے قریب ووٹرز ہیں، تو 33 لاکھ کی نمائندگی کرنے والی اسمبلی کو آٹھ یا 10 ہزار لوگ یرغمال نہیں بنا سکتے، جہاں تک دو سال کی کارکردگی کی بات ہے تو میں چیلنج کر کے کہہ سکتا ہوں کہ کسی ٹی وی، ٹاک شو میں میرا کوئی بڑے سے بڑا ناقد میرے ساتھ بیٹھ جائیاور عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ دو سال میں ہم نے کیا کیا؟ احتجاج مخصوص مقاصد کے لیے کیے جاتے ہیں، میری گزشتہ دو سال کی حکومت کی کارکردگی گزشتہ 77 سالوں کی گورننس کا احاطہ تو نہیں کر سکتی، جب اقتدار سنبھالا تو حکومت پر تقریبا 10، 11 ارب کا قرضہ تھا، وہ ہم نے اسی سال اتارنے کی کوشش کی،اس کے بعد جو عوامی مطالبات سستی بجلی اور سستے آٹے کے ہمارے آئیڈیل ایشوز تھے جوبڑے عرصے سے چل رہے تھے، 2003 سے جب منگلا ڈیم اپ ریز ہوا اور اس کے بعد نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ بنا، تو ان ایشوز کی وجہ سے ایک unrest مجھ سے پہلے چل رہا تھا, اس کے ساتھ arrears بھی تھے اس تناظر میں کوئی ایگریمنٹس ہی نہیں تھے، اس کی بنیاد پر یہ تباہی مجھے ورثے میں ملی، یہ کوئی میری یا میری حکومت کا کریڈٹ نہیں تھا، اس مالی سال میں تقریباً 70 ارب کا خسارہ پرائم منسٹر نے اپنے موجودہ ریسورسز سے پورا کیا، اللّہ کا شکر ہے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں مسئلہ کشمیر کواجاگر کرنے میں بہترین پیش رفت ہوئی،موجودہ سپہ سالار کی موجودگی میں ان کے واشگاف تحریک آزادی کشمیر سے وابستگی، اور پھر ”معرکہ حق” نے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے ایک انٹرویو میں کیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا کہ بچت کا پروگرام میں نے اپنی ذات سے شروع کیا اور اس میں آپکو یہ مثال دیتا ہوں کہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا، پچھلے دو سال اور چار ماہ میں ایک سنگل گاڑی کسی بیوروکریٹ اور کسی وزیر کے لیے نہیں خریدی گئی، بلکہ جو پرانا ہمارا بیڑا تھا 400 گاڑیوں کا وہ ہم نے نیلام کر دیا، ان کے جو ویئرز، ٹیئرز تھے، ان کے نام پہ پٹرول، لاگ بک کے سارے خرچے، انفورسین ایکسپینڈیچر تھے، وہ سب میں نے ختم کر دیا، اتنا شدید مالیاتی ڈسپلن نافذ کیا کہ آج الحمدللہ آزاد کشمیر گورنمنٹ فائنینشلی بالکل ٹھیک ٹھاک ہے، ہم نے اپنے بجٹ سے ہیلتھ کارڈ رکھ دیا، اپنے رورل ہیلتھ سینٹرز کو ہیلتھ پیکج دیا، اپنے بی ایچ یوز کو، ہاسپٹلز کو اپگریڈ کرنے کے لیے ایک خطیر رقم،جو بلینز میں ہے وہ رکھی، ابھی تعلیمی پیکج دینے جا رہے ہیں، آزادکشمیر میں تقریباً مفت تعلیم ہے، نوجوانوں کے روزگار کے لیے علیٰحدہ تین ارب کا پورٹ فولیو بنایا، بی آئی ایس پی کا بہت بہتر،نیا سروے آزادکشمیر میں ہو رہا ہے جس کے لئے 10 ارب روپے کی لاگت سے میں نے فنڈ بھی مخصوص کر دیا ہے اس کے بعد بینک آف کشمیر کا اربوں روپے میں مالیتی ڈیفیسٹ تھا وہ بھی پورا کردیا، ادارہ جاتی اصطلاحات اس طرح کی کہ 3000 نوجوان آزادکشمیر میں این ٹی ایس پاس کر کے بھرتی ہوئے، اگر میرٹ نہ نافذ کیا جاتا تو ان میں سے ایک بھی بچی، بچہ بھرتی نہ ہو سکتا، ایڈہاک تقرریوں میں بھی 100 فیصد شفافیت، پبلک سروس کمیشن ایسا بنا دیا کہ وزیراعظم کو بھی جرآت نہیں ہے کہ وہ کسی میمبر یا چیئرمین کو فون کر سکے، جہاں تک دو سال کی کارکردگی کی بات ہے تو میں چیلنج کر کے کہہ سکتا ہوں کہ کسی ٹی وی، ٹاک شو میں میرا کوئی بڑے سے بڑا ناقد میرے ساتھ بیٹھ جائیاور عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ دو سال میں ہم نے کیا کیا؟ آزاد کشمیر میں صرف ای-ٹینڈرنگ کرتے ہوئے کمیشن اور رشوت خوری کو ختم کر کے ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے ہم نے بچت کی اور اپنے سورسز کے ساتھ3300 کلومیٹر سڑکیں آزادکشمیر کے 33 حلقوں میں دو سالوں میں بن رہی ہیں، محکمہ برقیات میں جب تین روپے بجلی دی تو لوگوں نے آزادکشمیر سے گیس کا تصور ہی ختم کر دیا، وہ الیکٹرک چولہے لے آئے، جب وہ انفراسٹرکچر پر بوجھ پڑا تو مجھے پورے ڈیپارٹمنٹ کی rationalisation کرنا پڑی، وہاں 1200 نئی پوسٹیں تخلیق کرنا پڑی، ڈیپارٹمنٹ کو کمرشل بنیادوں پر ری سٹرکچر کرنا پڑا، اس کے بعد پچھلے 77 سالوں میں پولیس کی طرف آزادکشمیر میں بالکل توجہ نہیں دی گئی، ہمارے پاس موبائل موومنٹ کے لیے ٹروپس کے کیریئرز 1963, 64 ماڈلز تھے، مثلاً وہ راستے میں کھڑے رہتے تھے، وہ سارے کے سارے اوور آل کیے، نئے تھانے، نئی گاڑیاں دیں، اس کے بعد پنجاب کی طرز پر فوڈ اتھارٹیز بنائیں اور اس کے بعد موبائل لیبز بنائیں تو اگر میں بیان کرتا جاؤں، جتنے اربوں کے ڈیڈ پراجیکٹس تھے، جن میں رٹھوعہ ہریام ہے جو 23 سال سے مختلف وفاقی حکومتوں اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کی نااہلی کااستعارہ بن چکا تھا اس پر الحمدللہ کام شروع کیا، آٹھ ارب کا جاگراں ہائیڈل پراجیکٹ ڈوب رہاتھا اس پر کام شروع کیا، مافیاز پر ہاتھ ڈالا جب آپ status quo کو ہیڈ آن ٹکراتے ہیں تو پھر کہیں نہ کہیں میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوتا ہی ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیا عوامی ایکشن کمیٹی بارڈر پہ کھڑے ہو کے معرکہ حق لڑے گی؟ پھر جب ہم حساس انسٹالیشن کی حفاظت کی بات کرتے ہیں، کوئی تھریٹ الرٹ جاری ہوتا ہے، یہ اس کی بھی مخالفت شروع کر دیتے ہیں، یعنی یہ کوئی رویہ ہے کہ آپ آزاد کشمیر کی سٹریٹیجک انسٹالیشنز کی گارڈ کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ اس کو بھی لائاینڈ آرڈر کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، پچھلے ایک ہفتے سے آپ دیکھ لیجیے، پرامن احتجاج، پرامن احتجاج، پرامن احتجاج ہو کہاں رہا ہے؟ نوجوانوں کے ہاتھوں میں تمبر کے ڈنڈے درختوں سے کاٹ کاٹ کر، یہ ریاست کے ساتھ ایک مسلح تفاوت کے لیے ہو سکتا ہے، آزادکشمیر کی کسی ایک سیاسی جماعت نے چاہے وہ اسمبلی کے اندر موجود ہے یا اسمبلی کے باہر موجود ہیں، انہوں نے ان مہاجریں نشستوں کے خاتمے کے لیے ان کے حق میں کوئی مخالف بیان موجود نہیں

Related Articles

Back to top button