پریس کلب کاسیمینار‘کم اجرت‘صحافیوں کی خراب مالی حالت پر تشویش

مظفرآباد (محاسب نیوز) کم اجرت، ناقص سروس اسٹرکچر اور پیشہ ورانہ معیار کی کمی کے باعث صحافیوں کی مالی حالت انتہائی خراب ہے۔آزاد کشمیر میں صحافی سنسرشپ، ہراسانی اور قانونی دباؤ کا شکار، فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ اپنے جغرافیائی اور سماجی و ثقافتی تناظر کے زیرِ اثر، آزاد کشمیر کا مقامی میڈیا سنسرشپ، ہراسانی، قانونی رکاوٹوں اور منظم کمزوریوں کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہے، جس نے خطے میں صحافتی آزادی کی نازک حالت کو آشکار کیا ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹرفریڈم نیٹ ورک اقبال خٹک نے سنٹرل پریس کلب مظفرآباد اور مقامی صحافتی یونینز کے تعاون سے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہاکہ میڈیا شدید پابندیوں کا شکار ہے، جن میں مالی مسائل، سرکاری رکاوٹیں شامل ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا کا عروج ایک نئی دریافت ہے، جسے زیادہ تر لوگ نہیں جانتے تھے۔ مجھے امید ہے یہ رپورٹ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے غور و فکر کا سامان فراہم کرے گی تاکہ ہم مل کر ان مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔یہ انکشاف فریڈم نیٹ ورک کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا۔آزاد کشمیر میں اظہارِ رائے کی آزادی کو مختلف ذرائع سے خطرات لاحق ہیں، جن میں حکومتی ادارے، ذات پات پر مبنی طاقتور ڈھانچے، انتہا پسند گروہ اور منظم جرائم پیشہ نیٹ ورک شامل ہیں۔ صحافی اکثر بااثر افراد،مقامی حکومتوں، کاروباری طبقے اور مقامی مافیا کے دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔صحافتی آزادی کی صورتحال، معلومات تک رسائی اور صحافیوں و دیگر میڈیا پیشہ وران کی سلامتی فریڈم نیٹ ورک کی ان رپورٹس کی سیریز کا حصہ ہے جو ملک کے پسماندہ خطوں میں صحافتی آزادی کی صورتحال پر روشنی ڈالتی ہیں۔ رپورٹ کی اشاعت کو انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (IMS) کی تکنیکی معاونت حاصل تھی جس نے مقامی شراکت داروں کے تعاون سے 2012 میں اقوامِ متحدہ کے ”صحافیوں کے تحفظ اور استثنیٰ کے خاتمے” کے ایکشن پلان کے بعد پاکستان سمیت پانچ ممالک میں صحافیوں کے تحفظ کو ”قومی ایجنڈا” بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس سے قبل گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب کے بارے میں بھی ایسی رپورٹس جاری ہو چکی ہیں جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے بارے میں بھی اسی نوعیت کی رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔مقامی ڈیجیٹل صحافت کے بڑھنے سے نئے خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ کئی ڈیجیٹل صحافی بغیر ایڈیٹوریل رہنمائی کے غیر ضروری خطرات مول لیتے ہیں۔ منظم جرائم پیشہ گروہ اور انتہا پسند تنظیمیں بھی شدید خطرہ ہیں، کیونکہ حساس معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی حملوں، دھمکیوں اور توہین کے الزامات کا نشانہ بنتے ہیں۔کئی صحافی یا تو بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں یا انتہائی کم اجرت پر، اور بعض اوقات ادارے انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ اشتہارات کے لیے دباؤ ڈالیں۔صنعتی ضابطہ کاری کے فقدان نے صحافیوں کے کام کی غیر یقینی اور کمزور صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو متنازع موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر حکومت اگرچہ شہری سلامتی کو ترجیح دینے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن صحافیوں کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی مخصوص اقدامات موجود نہیں۔ ”سندھ یا وفاق کی طرح صحافیوں کے لیے کوئی باقاعدہ حفاظتی قانون آزاد کشمیر میں موجود نہیں، جس کی وجہ سے صحافی دشمن ماحول میں بغیر مدد کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔اسی کمی کے باعث ہراسانی، دھمکیوں اور صحافیوں پر حملوں کے واقعات پیش آتے ہیں۔سنسرشپ بھی آزاد کشمیر میں مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے، جن میں سرکاری طور پر عائد پابندیاں، خود سنسرشپ اور ڈیجیٹل خاموشی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق حکومت نے ”کمیونٹی” کی قانونی تعریف کو اپنے اندر شامل کرلیا ہے تاکہ ایسے قوانین کے تحت صحافیوں پر مقدمہ چلایا جا سکے جو حکومتی اداروں پر تنقید کو جرم قرار دیتے ہیں۔ اس تناظر میں کاشف میر، مینیجنگ ایڈیٹر اسٹیٹ ویوز نے رپورٹ کے مصنفین کو بتایاکہ”یہ قانون بنیادی طور پر کہتا ہے کہ اگر آپ کمیونٹی کا مذاق اڑائیں تو آپ کو سات سال تک قید ہوسکتی ہے۔رپورٹ میں خواتین کی کم نمائندگی کو بھی تشویش ناک قرار دیا گیا۔ آزاد کشمیر میں 85 ممبران میں صرف پانچ خواتین صحافی ہیں، اور ان میں سے صرف دو کو پریس کلب کی رکنیت ملی ہے۔روزنامہ جہاں مشرق کے ایڈیٹر ابرار حیدر نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا آزاد کشمیر کے صحافتی منظرنامے کو تیزی سے بدل رہا ہے۔ڈیجیٹل میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں صحافت کی جگہ بہت تیزی سے لے رہا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی سنسرشپ میں کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ الگورتھمز مبینہ طور پر بھارتی بیانیے کو ترجیح دیتے ہیں اور کشمیری آوازوں کو دباتے ہیں۔رپورٹ نے آزاد کشمیر کے صحافیوں کو بااختیار بنانے، ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، میڈیا ڈویلپمنٹ اداروں کی مسلسل ادارہ جاتی مدد، صحافتی آزادی کے لیے وکالت کو مضبوط بنانے، صحافیوں کے خلاف جرائم میں استثنیٰ ختم کرنے کے لیے قانونی فریم ورک کی تشکیل، معلومات تک رسائی کے نظام، میڈیا میں صنفی حساسیت کو فروغ دینے اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے معاونت کی سفارش کی ہے۔