کالمزمظفرآباد

دہشتگردی اورسرپرستی دونوں ناقابل برداشت ہیں

پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ اپنی ریاست کے دورے پرنکلا۔اس نے راستے میں جب کچھ گدھوں کوسیدھی قطارمیں چلتے دیکھاتوبہت حیران ہوا۔اس کے دل میں خیال آیاکہ وہ بادشاہ ہوکرملک کے نظام اورلوگوں کوسیدھانہیں چلاپارہاتوان گدھوں کے مالک کے پاس کونسی جادوکی چھڑی ہے جویہ گدھے سیدھی قطارمیں چلتے جارہے ہیں اس نے اپنے سپاہیوں کوحکم دیاکہ گدھوں کے مالک۔کمہارکوپیش کیاجائے۔کمہارکوپیش کیاگیاتوبادشاہ نے کمہارسے گدھوں کے سیدھی قطارمیں چلنے کارازپوچھا۔کمہارقہقہ لگاتے ہوئے بے خوف بولابادشاہ سلامت یہ کونسامشکل کام ہے جب کوئی گدھاسیدھانہیں چلتااسے ڈنڈے سے مارجاتاہے اسی لیے گدھے جانتے ہیں کہ مالک کے اصول کی خلاف ورزی پرسزاملے گی لہٰذاگدھے سیدھی قطارمیں چلتے ہیں۔بادشاہ بولاتم گدھوں کوسیدھاکرسکتے ہوتوکیامیری سلطنت کے جرائم پیشہ انسانوں کا بھی کوئی حل کرسکتے ہو؟کمہاربولابادشاہ سلامت کوئی مشکل نہیں۔بادشاہ کمہارکواپنے ساتھ اپنے محل لے گیا۔اگلے دن بادشاہ کادربارلگا۔بادشاہ کے سامنے چوری کے مجرم کوپیش کیاگیا۔باشاہ نے کمہارکی طرف اشارہ کرتے ہوے چورکیلئے سزاتجویزکرنے کاکہا۔کمہارنے کہاچورکا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔پاس بیٹھے وزیرنے کمہارکواشارہ کیا۔سزازیادہ ہے چوراپناہی بندہ ہے۔کمہارنے کہاچورکے دونوں ہاتھ کاٹ دئیے جائیں۔وزیرنے پریشانی کی حالت میں کمہارکے پاس جاکرکہاکیاکررہے ہوکہاناں اپنابندہ ہے۔کمہارنے بلندآوازمیں فیصلہ دہراتے ہوئے کہاچورکے دونوں ہاتھ اوروزیرکی زبان کاٹ دی جائے۔کمہارنے سرگوشی کے اندازمیں وزیرسے کیاکہا؟کالم کے آکرمیں بتاوں گا
دہشتگردی کامسئلہ سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔دہشتگردی، جرائم اور سیاسی سرپرستی کے گٹھ جوڑ کو برداشت کرنا قومی سلامتی اور معاشرتی بقا کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور کور کمانڈرز کانفرنس کے بیانات نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ ریاست اور قوم دہشتگردی کے سہولت کاروں، جرائم پیشہ عناصر اور ان کی سیاسی پشت پناہی کومزیدبرداشت نہیں کرے گی۔ دہشتگردی اور جرائم کاخاتمہ کرنے کیلئے سکیورٹی فورسزکے ساتھ نظام عدل کاکرداربھی لازم ہے۔ جب دہشتگرد عناصر طاقتور حلقوں یا سیاسی شخصیات کی سرپرست حاصل کر لیتے ہیں تو مسئلہ سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے۔ سرپرستی نہ صرف مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ قانون کی حکمرانی اور عوام کے اعتماد کو بھی کمزور کر
دیتی ہے۔ اس صورت میں سزا، احتساب اور شفافیت کے بغیر دیرپا امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شواہد کی بنیاد پر بلا امتیاز کارروائی کریں۔ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید
ٹیکنالوجی، تربیت اور قانونی خودمختاری فراہم کرنا لازمی ہے تاکہ کاروائیاں بروقت اور موثر ہوں۔ تاہم فوجی طاقت یا سکیورٹی آپریشن تنہا مسئلہ حل نہیں کرتے؛ عدالتی نظام کا فعال، تیز اور شفاف ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ خصوصی ٹرائلز، شواہد کی حفاظت اور اثاثوں کی منجمدگی جیسے اقدامات دہشتگردانہ نیٹ ورکس کی معاشی جڑوں کو کاٹنے میں مدد ے سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کا اخلاقی و سیاسی کردار بہت اہم ہے۔ سیاستدان اپنے انتخابی یا ذاتی مفاد کے لیے دہشتگرد عناصر یا جرائم پیشہ رابطوں کو چھپائیں یا ان کی پشت پناہی کریں تو یہ قومی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ سیاسی قیادت کو لازمی قرار دینا چاہیے کہ وہ اپنے حلقوں میں شفافیت، احتساب اور قانون کی حکمرانی کو فوقیت دے گی۔ جو بھی سرپرستی کرے، چاہے وہ کوئی بھی ہو اسے بھی دہشتگردتصورکیاجانا چاہیے تاکہ قانون کی حکمرانی کا پیغام واضح ہو۔ دہشتگردی اور جرائم کی سرپرستی کرنے والا کوئی بھی فرد یا گروہ، چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہوچاہے کوئی کسیی اہم وزارعت پرفائزوزیرہی کیوں نہ ہو، قوم کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔دورحاضرمیں دہشتگردوں اوراُن کے سہولت کاروں کوسیدھاکرنے کیلئے دورقدیم کے کمہاروالافارمولاآج بھی سوفیصدکارآمدثابت ہوسکتاہے۔دہشتگروں اوردیگرجرائم پیشہ عناصرکی سرپرستی اورسہولت
کاری کرنے والوں کوبھی وہی سزائیں دینی چاہیے جودہشتگردوں اوردیگرجرائم پیشہ عناصرکیلئے تجویزکی جائیں،دہشتگردی کی سرپرستی کرنے والے نمک حراموں اورغداروں کے شیطانی چہروں کوبے نقاب کیاجاناچاہیے اوراُن کیلئے موت سے کم کوئی سزانہیں ہونی چاہیے۔جب تک چوری کرنے والے ہاتھ اورسہولت کاری کرنے والی زبان کوایک ساتھ نہیں کاٹاجاتاتب تک جرائم کاخاتمہ ممکن نہیں۔حکومت اورفوج مل کردہشتگردی اورسہولت کاری کیخلاف سخت ایکشن لیں،اللہ کے حکم سے قوم مکمل ساتھ دے گی۔
کمہارنے چورکے دونوں ہاتھ اوروزیرکی زبان کاٹنے کافیصلہ سنانے کے بعد سرگوشی کے اندازمیں وزیرسے کہاچاہتاتوزبان کی جگہ گردن کاٹنے کاحکم بھی سناسکتاتھا۔

Related Articles

Back to top button