
تحریک لبیک کے ساتھ جو کچھ ہوا پاکستانی معاشرے اور تاریخ میں قطعی نیا نہیں۔چاردہائیوں سے ہر دوچار سال بعد ایک نازک موڑ آتاہے اور موڑ کاٹتے ہوئے کوئی غفلت اور بے تدبیری ایسی ہوتی ہے گاڑی گہری کھائی میں جا گرتی ہے اور پھر باقی توانائیاں اس گاڑی کو کھائی سے نکالنے میں صرف ہوتی ہیں۔قوموں کی تاریخ میں ایسے واقعات یاتو دہائیوں کے بعدرونما ہوتے ہیں یا پھر ایسے مواقع آتے ہی نہیں مگر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی گاڑی مستقلاََ ہی نازک موڑ پرکھڑی ہے۔نازک موڑ کی طرح قومی مفاد کی اصطلاح بھی پاکستان کے ساتھ چمٹ کر رہ گئی ہے۔نہ نازک موڑ ہماری جان چھوڑتا ہے نہ قومی مفاد کی اصطلاح سے خلاصی حاصل ہوتی ہے اگر کچھ بدلتا ہے تو صرف حکمران کا چہرہ بدلتا ہے۔ایک حکمران رخصت ہوتا تو اس کے ساتھ ہی اس کا تصورِ قومی مفاد بھی وقت کے عجائب خانے کی نذر ہوجاتا ہے اور اس کا نازک موڑ بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔نئے حکمران کا اپنا نازک موڑ اور اپنا تصور قومی مفاد ہوتا ہے۔یہی پاکستان کی تکلیف دہ اور دل خراش تاریخ کی ساری کہانی ہے۔تحریک لبیک کے ساتھ جو کچھ ہوا تو اس کے بعد2025میں 2007کے لال مسجد کے مناظر نظروں اور یادوں میں گھومنے لگے۔نائن الیون کے بعد مغربی میڈیا نے بتایا کہ اصل خرابی دیوبندی اسلام کی تعبیر وتشریح اور تعلیمات ہیں۔فی زمانہ جہادی سوچ وفکر نے یہیں سے تقویت حاصل کی ہے اور یہی وہ سوچ تھی جس نے افغانستان میں اُسامہ بن لادن کو پناہ دے کر امریکہ پر حملہ کرنے کا موقع اور ماحول فراہم کیا۔اس سوچ کے تحت دیوبندی سکول آف تھاٹ کی تعلیمات کو محدود کرنا حالات کا تقاضا ٹھہرا۔یہ کام خلاء میں نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس کا مقابل اور متبادل پیش کرنا بھی ضروری تھا۔پاکستان چونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اگلا مورچہ بن چکا تھا اس لئے وہ باہر ہونے والے ان فیصلوں سے براہ راست متاثر ہورہا تھا۔پاکستان خوفناک دہشت گردی کا سامنا کررہا تھا اور اچانک اسلام آباد میں لال مسجد میں قال اللہ وقال الرسول کے مقصد سے آگے بڑھ کر مسجد کی دیواروں سے باہر نکل کر سرگرمیوں کا آغاز کیا۔غازی بردارا ن میڈیا کا موضوع بنتے چلے گئے۔میڈیا نے لال مسجد کا ایسا امیج بنانا شروع کیا کہ جیسے یہ مسجد اسلام آبا د کے قلب میں نہیں مریخ پر ہو۔میڈیا نے لال مسجد کی سرگرمیوں اور اس کے اردگرد آپ پارہ کی ایسی منظر کشی شروع کی کہ یوں لگ رہا تھا کہ اسلام آبا دکی سب قدیم مارکیٹ کے گرد ونواح میں وار لارڈز کا راج ہو اور جا بہ بہ جا ناکے ہوں۔مرحوم نذیر ناجی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حامی ناموں میں نمایاں نام تھے نے ایک کالم میں آب پارہ کی ایسی منظر کشی کی خوف کی جھرجھری سی بدن میں پیدا ہونے لگتی مگر عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔لال مسجد کے گرد ونواح میں حالات معمول پر تھے۔نہ جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ کے طلبہ وطالبات اسلحہ لے کر گھومتے نظر نہ آتے نہ وہ ناکے لگا کر ٹیکس وصول کرتے مگر میڈیا اس کے برعکس اس مقام کی منظر کشی کرتا تھا۔ کچھ یہی حال نجم سیٹھی کے انگریزی جریدے فرائیڈے ٹائمز کا تھا۔یہاں تک کہ لال مسجد اور ریاست آمنے سامنے آتے چلے گئے تصادم کا ماحول گہرا ہوتا چلا گیا صلح صفائی کے امکانات معدوم ہونے لگے۔آخری مرحلے پر غازی برادارن خود سپردگی پر آمادہ تھے اس پیشکش سے فائدہ نہ اُٹھا یا گیا اور لال مسجد میں آپریشن لازم ٹھہرا۔جس کے بعد پاکستان میں خود کش حملوں کا سیلاب سا آگیا۔اس کے ساتھ سرکاری چھتر چھائے میں دیوبندی تصورات کے مقابل صوفی اسلام کو متعار ف کرانے اور اس کی سرپرستی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔پرویز مشر ف نے اپنی سرپرستی میں صوفی کونسل قائم کی۔وہ قوالی نائٹس میں جانے لگے۔بریلوی علماء کو ٹی وی پر امن آشتی اور ریاست سے وفاداری کی علامت کے طور پر پرموٹ کیا جانے لگا۔کئی مدارس پر دھن بھی برسنے لگا۔اسی ہاو ہو میں سلمان تاثیر کا قتل ہوگیا۔جو ماحول بنایا گیا تھا اس میں ہر شخص کا پہلا خیال یہ تھا کہ سلمان تاثیر کو طالبان حامی کسی شخص نے نشانہ بنایا ہوگا مگر سب اندازے اس وقت غلط ثابت ہوئے جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتازقادری کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے۔جو ظاہر ہے اس وقت کے مروجہ جہادی رویوں سے قطعی دور ر اور الگ تھلگ بھی تھا اور ریاست کی گڈ بک میں بھی تھا۔یوں دیوبندی کے بعد بریلوی اسلام کوپرموٹ کرنے کا سلسلہ بھی یہیں رک گیا۔ممتاز قادری کی پھانسی کے اثرات سے مولانا خادم رضوی کا ظہور ہوا۔جو عشق رسول کے حوالے کے ساتھ پروانہ وارجان دینے کی بات کرتے نظرآتے۔ان کی عوامی رونمائی کے پہلے مرحلے پر سوشل میڈیا پرایک سونامی کی طرح ان کی آمد ہو رہی تھی۔ وہ اقبال کے فارسی اور اردو کلام سے مزین ایسی شعلہ نوائیاں کرتے رہے جس سے ایک نسل کی ذہن سازی سیماب صفتی کے ساتھ ہوتی رہی۔ان کی تقریروں میں وہی رنگ جھلکتا تھا جو کسی دور میں لال مسجد کے بانی مولانا عبداللہ کی تقریروں میں جہاد اور قتال کے حوالے سے نمایاں ہوتا تھا اور وقت نے دونوں کو ریاست کے مقابل لاکر مشت ِ خاک بن کر اُڑادیا۔ ابتدائے سفر میں دونوں ریاست کے معاون، تراشیدہ اور فخریہ پیشکش سمجھے گئے اور کی سیمابیت ہی آگے چل کر ریاست کے ہاتھوں ہی ان کا قصہ تمام کرنے کا باعث بنی۔ لال مسجد میں آپریشن اس میں مارے جانے والوں کی تعدا د لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا انداز سب کچھ تنازعات کی زد میں رہا تو مریدکے سانحہ بھی تنازعات کے وہ سارے رنگ لئے ہوئے ہے۔ مریدکے کے کنٹینرسے سعد رضوی کی مذاکرات کی درخواستیں اور دُہائیاں لال مسجد کے حجرے سے عبدالرشید غازی کی امن کی اپیلوں اور پرامن محفوظ راستے کی پیشکشوں کی یاد دلارہی تھیں۔یوں لگ رہا تھا کہ دونوں کسی نظریہ ضرورت کے ہاتھوں قیدی اور ٹریپ ہو کر رہ گئے ہیں مگر پانی سر کے اوپر سے گزر چکا تھا۔ مریدکے کے بعد اب صوفی کونسل متروک ہی نہیں معتوب بن چکی ہے اور اب ایک بار پھر دیوبندی سکول آف تھاٹ کے مولانا اشرفی ریاست کی ترجمانی اور اس کے اقدامات کی جوازیت کا مقدمہ لڑتے نظر آرہے ہیں۔ریاست کے یہ مخمصے اور مغالطے وقت کی ضرورتوں سے جنم لیتے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں ایک خون آلود صفحہ کا اضافہ کرنے کا باعث بنتے چلے جا رہے ہیں۔بظاہر ریاست پرانی کہانی کو فسخ کرنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے مگر حقیقت میں پرانی کہانی کو نئے عنوان اور نئے نام سے دہرایا جاتا ہے اور فیض احمد فیض کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان نے بس یونہی چلنا اور چلتے چلے جانا ہے۔