دہشتگردی کاخاتمہ،مذاکرات یاجنگ،ہم تیارہیں

افواجِ پاکستان اور غیور پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں سے جس عزم، ہمت اور استقلال کے ساتھ آہنی دیوار بن کر کھڑی ہے، اُس کی مثال خطّے میں کہیں اور نہیں ملتی۔ہرقسم کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے سپاہیوں نے سینہ سپر ہو کر اپنی جانوں کو قربان کیا۔ اب جنگ صرف بارود اور گولیوں کی نہیں رہی، یہ جنگ نظریات اور بقاء کی جنگ ہے، جس میں افواج پاکستان نے ہر محاذ پر جرات اور قربانی کی ایسی داستانیں رقم کیں جنہیں تاریخ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے گی۔فتنہ الخوارج کے نام پر اُبھرتا انتہا پسندی کا یہ عفریت جب ملک کے طول و عرض میں پھیلنے لگا، تو ہمارے جوانوں نے بغیر کسی خوف کے اُس کے تعاقب میں اپنی جوانیاں، خواب اور مسکراہٹیں قربان کردیں۔ شہدا کی مائیں آنکھوں میں آنسو اور دل میں فخر لیے اپنے بیٹوں کو وطن پر قربان کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا،ان کے خاندانوں کاخیال رکھنااوروطن پرجان قربان کرنے کاجذبہ قائم رکھنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ شہداء کا خون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کا پرچم بلند رکھنے کے لیے یہ قربانیاں لازم تھیں اور ہیں۔خیبر پختونخوا کے حساس اضلاع میں گزشتہ روز سکیورٹی فورسز کی دو اہم کارروائیوں نے ایک بار پھر پاکستان کے موقف کی تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان بھارتی پراکسی کے طورپرپاکستان کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سپین وام میں خفیہ اطلاع پر کی جانے والی کارروائی میں چار خودکش بمباروں سمیت پندرہ خوارج کو ہلاک کیا گیا، جبکہ ضلع کرم کے علاقے گھکی میں دوسری کارروائی کے دوران مزید دس دہشت گرد مارے گئے۔ دونوں آپریشنز سے بھاری مقدار میں جدید اسلحہ، گولہ بارود اور بارودی مواد بھی برآمد ہوا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہشتگرد منظم اور بیرونی پشت پناہی سے تقویت یافتہ ہیں۔بدقسمتی سے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے قوم کے پانچ بہادر سپوت شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ شہداء میں 35 سالہ حوالدار منظور حسین، 23 سالہ سپاہی نعمان الیاس، 24 سالہ سپاہی محمد عادل، 25 سالہ سپاہی شاہ جہان اور 25 سالہ سپاہی علی اصغر شامل ہیں۔ ان جوانوں نے اپنی جوانی، مسکراہٹیں، خواب اور تمنائیں اپنے وطن کے نام کیں۔ قوم ان کے خاندانوں کی مقروض ہے۔ ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ شہید صرف فرد نہیں ہوتے بلکہ ایسے عظیم پرچم کی مانند ہوتے ہیں، جن کے سائے میں آنے والی نسلیں محفوظ ہوتی ہیں۔یہ کارروائیاں ایسے وقت میں کی گئیں جب ترکی کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ہفتے کو9اور اتوار کو13گھنٹے طویل مذاکرات ہوئے، افسوس کہ کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ طالبان کی جانب سے تحریری معاہدہ کرنے سے گریز اور موقف میں لچک کی کمی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی پوزیشن واضح ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ہی مستقل امن کی بنیاد ہے۔افسوس یہ ہے کہ افغان سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان مخالف نیٹ ورکس کا گھڑ بن چکی ہے۔ طالبان کی حکومت مشروط یقین دہانیاں تو دیتی ہے پر زمینی حقائق ان کے بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔پاکستان مسلسل نشاندہی کر رہا ہے کہ دہشت گرد، سہولت کار اور بارڈر پار محفوظ ٹھکانے پاکستان کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ دہشت گردوں کے قبضے سے ملنے والا جدید اسلحہ پاکستان کے موقف کو مزید تقویت دیتا ہے کہ بھارت بطور پراکسی سرگرم ہے اورکھلے عام خطے کا امن سبوتاژ کر رہا ہے۔افغان طالبان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان نہ صرف اُن کا واحد عالمی سطح پر خیرخواہ ملک رہا ہے بلکہ پناہ گزینوں، تجارت اور سفارتی سطح پر ہمیشہ تعاون بھی کرتا رہا ہے۔ یہ رویہ ناقابل قبول ہے کہ ایک طرف زبانی یقین دہانیاں ہوں،جبکہ دوسری طرف سرحد پار دہشت گردی جاری رہے۔ ریاستِ پاکستان اب سفارتی نرمی کے ساتھ سخت حکمت عملی کی طرف بڑھ چکی ہے۔یہ فیصلہ اب قومی سطح پر پختہ عزم بن چکا ہے کہ دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔موجودہ صورتحال ایک بڑے خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ طالبان بطور حکومت دہشت گردوں کی پشت پناہی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے تو خطہ دوبارہ عدم استحکام، معاشی دباؤ اور خونریز کشیدگی میں پھنس سکتا ہے۔پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے ہاتھوں اسی ہزار سے زائد جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔اب قوم مزید قیمت دینے کے موڈ میں نہیں۔افغان طالبان رجیم کو سمجھ لیناچاہیے کہ کوئی بھی ریاست اپنی سلامتی کیلئے صرف مذاکرات نہیں کرتی۔دنیا پریہ حقیقت پوری طرح ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے،پاکستان جنگ نہیں چاہتاپر جنگ مسلط کی گئی تو ہمارے دشمن جان لیں ہم نے دہشت گردی کی بربادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب نہ کوئی سہولت کار بچے گا، نہ سرپرست، نہ ماسٹر مائنڈ۔پاکستان نہ صرف بیانات بلکہ دہشتگردی کے خلاف شدیدردعمل سے واضع کرچکاہے کہ دہشتگردی کاخاتمہ ناگزیرہوچکاہے،مذاکرات ہوں یاجنگ،ہم تیارہیں۔پوری امیدہے کہ ترکیہ میں جاری مذاکرات کامیاب ہوں گے اورپاک،افغان کشیدگی محبت اوربھائی چارے میں تبدیل ہوگی۔ہندوستان بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ جلد ہی افغان طالبان پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے انکارکردیں گے اوردہشتگردی کے ہندوستانی منصوبے خاک میں مل جائیں گے لہٰذابہتریہی ہے کہ ہندوستان ایسی حرکتوں سے بازآجائے۔




