کالمزمظفرآباد

عبوری صوبہ کا تصور،مصور کون تھا

تحریر:۔اشتیاق احمد آتش

لوگ مانتے اور جانتے ہیں کہ آزاد جموں کشمیر کو صوبہ بنانے کا خیال پہلی بار پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذولفقار علی بھٹو کے ذہن رسا میں آیا تھا،لیکن میرا گمان کہتا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان سے بھی ہے،اور اس تخیل پر اس موقع سے پہلے بھی بات ہوتی رہی ہوگی جب معاہد ء تاشقند طے پارہا تھا،جب بھٹو اور صدر ایوب خان میں دوریوں سے پہلے نزدیکیاں ہوا کرتی تھیں،خیر چونکہ اس وقت تک آزاد جموں کشمیر میں سپریم کورٹ سطح کی کوئی عدالت وجود میں ہی نہیں آئی تھی اس لئے اس وقت آٓزاد جموں و کشمیر کو سٹیٹ کہے جانے کے باوجود اس سسٹم کی حیثیت ایک صوبے سے بھی کم تھی،یوں بھی اس وقت 1955سے پاکستان ”ون یونٹ“ سسٹم کے تحت چل رہا تھا ار اس کے دو ہی صوبے تھے،مغربی اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) اس سسٹم کے تحت سوائے جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے باقی ساری ریاستیں، صوبے اور دیگر زیر انتظام علاقے ون یونٹ (مغربی پاکستان) میں ضم کر دی گئی تھیں، اور یوں عملاَ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے نام سے جیسے دو پاکستان بن گئے تھے، جس سسٹم کو بعد ازاں 1970 لیگل فریم ورک آرڈرمیں توڑا اور سارے صوبے بحال کر دیے،َ ایکٹ1970ء کی دفہ25کے تحت ہی آزاد جموں کشمیر میں ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیا، یعنی اس وقت تک بھی ریاست کی حیثیت صوبے سے کم ہی تھی،اقوام متحدہ،یو این سی آئی پی کی قرار دادوں کے مطابق تو یہ ایک جداگانہ خطہ تھا،لیکن چونکہ انہی قرار دادوں کے مطابق انتظام و انصرام پاکستان کے سپرد تھا تو اس رشتے کے حوالے سے سٹیٹس کا تقابلی جائزہ لینے کے لئے صوبے کا پیمانہ استمال کرنا مجبوری بن جاتا ہے،لیکن جب ایکٹ 1974جو 24اگست 1974کو نافذ ہوا، کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1975میں ڈوگرہ نظام کی طرز پر 15مارچ 1975کوجوڈیشل بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیااور بتدریج ترامیم کے ذریعے 10مئی1975کو ہی آزاد جموں کشمیر سپریم کورٹ کا وجود ظہور پذیر ہو کر خطے کی ایک ریاست کی شکل مکمل ہو گئی، اسی عرصے میں کہیں جناب بھٹو مظفرآباد آئے تھے اور وہیں پر جلسہ کیا تھا جہاں کبھی شیخ عبداللہ نے مقبوضہ کشمیر سے آکر مسئلہ ء جموں کشمیر کے حل کی بات کی تھی، بھٹو صاحب نے اسی جلسے میں پہلی بار آزاد کشمیر کو صبہ بنانے کی بات کی تھی،پھر وہاں سے جنرل پرویز مشرف تک اس طرح کے کئی یو این سی آئی پی کی قراردادوں سے بالا بالا حل سامنے آتے جاتے رہے، پھر بھارت نے سیس فائر لائن پرجب باقاعدہ باڑ لگائی اور ہم نے لگانے دی تب سیایک کھٹکا سا لگا رہتا تھا، پھر 5اگست 2019سب کے سامنے ہے، جس میں سب سے حیرت ناک بات یہ تھی کہ ہم جموں کشمیر کے لوگوں اور ہمارے نام نہاد راہنماؤں نے اس وقت بھرپور رد عمل کیوں نہیں دیا، بحر حال یہ سب تو اب ماضی ہو گیا، تو ہم بات کر رہے تھے عبوری صوبے کے تصور کی، اس میں جدید اور نظریاتی و زمینی حقائق سے ہم آہنگ یا آپ قریب تر کہہ لیں، یہ تصور باقاعدہ سے پہلی مرتبہ رعیٹائرڈ چیف جسٹس، جسٹس منظورالحسن گیلانی نے بہت پہلے سردار سکندر حیات خان کے دور حکومت میں دیا تھا،یہ عین اسی وقت کی بات ہے جب پرویز مشرف مختلف فارمولے دے رہے تھے اور بھارت سے کوئی ممکنہ حل بھی ہونے جارہا تھا جو جنرل صاحب بہادر کے تاج محل آگرہ کی سیر کے بعد ہونے والی جارہانہ آگرہ پریس کانفرنس کی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا ان ہی دنوں چناب فارمولہ اور دیگر بھی کئی ایک فارمولے سامنے آئے تھے، تب منظورالحسن گیلانی نے یو این سی آئی پی کی قرار دادوں کے اندر رہتے ہوئے یہ عبوری صوبے والا فارمولا دیا تھا، ہم نے بھی اس بنا پر اس کی حمایت کی تھی کہ جب آئین عبوری ہے، حکومت عبوری ہے، نظام اسلام آباد سے ہمارے آئین کے عین مطابق کنٹرول ہوتا ہے تو عبوری صوبہ کیوں نہیں،خصوصاََ جب ہماری یو این کی پوزیشن پر کوئی آنچ نہیں آتی تو ہمارے نام پر اگر ہمارے ان راہنماؤں کو قومی اسمبلی یا کماز کم سینٹ میں کچھ نشستیں کوئی نمائندگی مل جاتی ہے، مختلف ایوارڈز میں حصہ مل جاتا ہے اور حق خود ارادیت سے پہلے آزاد علاقہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے تو کیا مزائقہ ہے، لیکن اس وقت شاید دینے والے ہی سنجیدہ نہیں تھے تو بات آگے نہ بڑھ سکی، اب 2019کے بعد حالات یکسر بدل چکے ہیں،فیالحال ساری تحریک حریت مین ہم آزاد علاقے والے تھوڑے تنہا رہ گئے ہیں، حریت کانفرنس آج بھی ہماری پشت ر کھڑی ہے لیکن فرق بہت پڑا ہے ”کل ہم ان کے پشتی بان تھے،آج وہ ہمارے پشتی بان ہیں“ لیکن ہم چونکہ گلگت بلتستان سے بھی کٹے ہوئے ہیں،اس لئے تھوڑے رہ گئے ہیں،اس وقت ہم جموں و کشمیر کی پوری اکائی کا اُنیسواں حصہ، موجودہ مقبوضہ کشمیر سے موازنہ کریں توتیرھواں حصہ، اور اگر گلگت بلتستان والے بھی ہمارے ساتھ مل جائیں تو ہم پھر بھی ہم تیسرے حصے سے کچھ زیادہ ہیں،آبادی کے لحاظ سے بھی ہم مقبوضہ وادی کا ساتواں بلکہ آٹھواں حصہ بنتے ہیں، ایسے میں ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے،ہر فیصلہ بڑی دانش اور تدبر سے کرنا چاہیے،ہمیں کوئی بھی تحریک بلا سوچے اور مقاصد کا تعین کئے بغیر نہ شروع کرنی چاہیے نہ ختم کرنی چاہیے، حالیہ زیر تسلسل ایکشن کمیٹی کی تحریک کچھ حاصل شدہ کامیابیاں اور کچھ زیر کار مراحل توایک بہانہ ہے، مگر وقت کہہ رہا ہے کہ ہمیں حق خود ارادیت کے حاصل ہو جانے تک کہیں نہ کہیں جانا ہے،بنیادی حقوق کی کسی منزل پر، تعمیر و ترقی کی کسی راہ پر گامزن ہونا ہے،اور ہمارے پاسبان، نگہبان، بڑے بھائی (جسے میں عمر کے حوالے سے ہمیشہ چھوٹا بھائی ہی سمجھتا اور کہتا ہوں) اقوام متحدہ کی طرف سے مقر کردہ محافظو نگران پاکستان کے حالات اور ان کے مؤقف اور سوچ کو اپنی امنگوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئی کسی طرف تو آگے بڑھنا ہے، یا حریت کانفرنس سمیت ہمارے غیر مملک خصوصاََ یورپ و امریکہ میں بسنے والے کشمیری جب تک میرے مشورے کے مطابق خود آگے بڑھ کر ؤ این سی آئی پی کی مردہ قرار دادوں میں جان نہیں ڈلوا دیتے تب تک ہمیں کیا کرنا ہے،جس مقام پر ہم اس وقت کھڑے ہیں جب ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کو ایک طرح سے ہم سے علیحدہ ہی کر دیا گیا ہے،گلگت بلتستان والے ہم سے راضی نہیں، تو کیا ہم اسی طرح کی ایکشن کمیٹیاں بنا بنا کر اور اسٹیبلشمنٹ کو گواہ اور ضامن بنا کر اسلام آباد سے مذاکرات کر کے معاہدے کرتے اور بظاہر اپنی حکومت سے ایک ایک بنیادی حق مانگتے رہیں، کیا ہم نے صرف متنازعہ رہنے کے لئے ہی جنم لیا تھا،”وے فارورڈ کیا ہے؟ صراط مستقیم کیا ہے؟میری سمجھ میں تو جو اس وقت آرہا ہے وہ پورا سیاسی سسٹم تباہ ہو جانے کے بعد ہم اب ٹکڑا ٹکڑا ہو کر مانسہرہ،ایبٹ آباد، کوٹلی ستیاں،کہوٹہ، جہلم اور گجرات سے منسلک ہونے کی طرف بڑھ رہے ہیں، کیا ہم اس کیلئے تیار ہو گئے ہیں یا کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟ حیران نہ ہوں کیا ہم نے اپنے سارے سیاسی نظام کو مسترد نہیں کر دیا،کیا اس وقت سیاست دان اور عوام آمنے سامنے نہیں کھڑے، کیا اس وقت ہمارا اسلام آباد کے سیاسی نظام پر بھی ہمارااعتماد متزلزل نہیں، کیا افواج پاکستان اور دیگر قومی سلامتی کے اداروں کے سوا ہم کسی دوسرے پر اعتماد کرنے اور کسی کو ضامن ماننے کیلے تیار ہیں، جب لے دے کر خدا کے بعد ہمارا آخری سہارا پاکستان ہی کی افواج اور پاسبان ہیں، تو پھر ہم اس کا اظہار کرنے سے کیوں کتراتے ہیں،اب کوئی خود مختاری کا جتنا بھی نعرہ لگائے لیکن اس پار مقبوضہ جموں کشمیر سے الگ ہوتے ہوئے ہماری کیا حیثیت اور کیا رائے ہے،عالمی حالات ہمارے سامنے ہیں،کل تک پاکستان سے پیار کی پینگیں بڑھا بڑھا کر آج امریکہ بھارت سے دفاعی معاہدہ کر کے بیٹھ گیا ہے، آج اُس اٹھارویں ترمیم میں مزید قطع و برید کر کے مرکز خود اپنا حق واپس لینے کیلئے کوشاں ہے، ایسے میں اگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے تو پھر کیا ہو گا؟ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ ہمدرست اور ٹھوس فیصلے کریں، اگر ہم نے فی الحال حق خود ارادیت کے حصول تک یا پورے جموں و کشمیر کی کسی معجزانہ مکمل آزدی کے واقعے تک کیسے جینا ہے،اس کا فیصلہ یا اپنی خواہش کا اظہارہمیں آج کرنا ہو گا، نہ صرف اظہار بلکہ ان بکھرے پڑے سیاست دانوں کو ساتھ
ملا کر اپنی خواہش کو ایک مظالبے،ایک مانگ کا روپ دینا ہو گا، ورنہ تاخیر ہو جائے گی، تو آئیں فیصلہ کریں کہ ہمارا نظام عبوری تو ہے مگر ہم اس میں کیسا اور کتنا باوقار رہنا چاہتے اور رہ سکتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button