سینیٹر عرفان صدیقی مرحوم۔۔۔۔۔۔۔قلم، فکر اور وفا کا استعارہ

قوم کے معتبر، شائستہ اور فکری طور پر روشن دماغ سینیٹر عرفان صدیقی کے انتقال کی خبر نے اہلِ علم، اصحابِ قلم، اور سیاسی و فکری طبقات کو یکساں غم زدہ کر دیا۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کے قلم نے ہمیشہ سنجیدگی، توازن، اور متانت کو اپنا شعار بنایا۔ ان کی تحریروں میں تہذیبِ گفتگو، وقارِ بیان اور فکری گہرائی کی وہ روشنی تھی جو آج کے شورش زدہ عہد میں شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے۔ عرفان صدیقی محض ایک کالم نگار نہیں تھے بلکہ وہ علم، کردار اور اخلاق کا درخشاں نمونہ تھے۔ ان کا قلم اردو زبان کی لطافت، اسلامی تہذیب کی متانت اور قومی سیاست کی بصیرت سے مزین تھا۔ وہ لکھتے نہیں تھے، سوچتے اور قوم کو سوچنا سکھاتے تھے۔ ان کے کالم ”نقطہ نظر“ نے ایک ایسی فکری روایت کو جنم دیا جو اختلاف کے باوجود احترام، اور تنقید کے باوجود شائستگی پر قائم رہی۔ عرفان صدیقی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ایک کامیاب استاد، محقق اور سرکاری خدمات کے دوران ایک دیانتدار افسر رہے۔ ان کے شاگرد آج بھی انہیں ایک مشفق اور مہربان استاد کے طور پر یاد کرتے ہیں، جن کی گفتگو میں ہمیشہ علم کا دریا اور دل میں نرم روشنی بہتی تھی۔ وہ قومی بیانیے کو علم و کردار کی بنیاد پر سمجھنے اور سمجھانے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میں عرفان صدیقی مرحوم کا دیرینہ قاری رہا ہوں۔ ان کی تحریروں سے فکری رہنمائی اور فہمِ سیاست کی تربیت ملی۔ جب ان کی قربت قائدِ محترم جناب محمد نواز شریف سے بڑھی، تو میری نیازمندی میں بھی اضافہ ہوا۔ اس قربت نے مجھے ان کے ساتھ بارہا رابطے کا موقع دیا۔ وہ نہایت شفقت سے رہنمائی فرماتے، حالات پر تجزیہ کرتے، اور اپنے الفاظ میں ایک ایسا وقار رکھتے جو دل پر اثر کرتا۔ نواز شریف ان کا نہ صرف بے پناہ احترام کرتے تھے بلکہ اہم سیاسی، فکری اور اخلاقی معاملات میں ان کی رائے کو فیصلہ کن اہمیت دیتے تھے۔ ان کی مجلس میں عرفان صدیقی کی گفتگو کو غور سے سنا جاتا، اور کئی مواقع پر نواز شریف نے برملا کہا کہ ”عرفان صدیقی میرے فکری ساتھی اور راست گفتار مشیر ہیں۔” ان کی وفاداری، خلوص اور دیانت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کبھی ذاتی مفاد کو ترجیح نہ دی، ہمیشہ قائد اور جماعت کے بیانیے کو قومی مفاد سے جوڑ کر دیکھا۔ عرفان صدیقی کی زندگی میں دورِ عمران خان ایک کٹھن مرحلے کی صورت میں آیا۔ ایک معمولی انتظامی معاملے پر انہیں گرفتار کیا گیا، اور اس واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ دیا۔ مگر وہ اس امتحان میں بھی صبر و وقار کی علامت بنے رہے۔ انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا، بلکہ خاموشی سے اس صعوبت کو برداشت کیا۔ ان کے چہرے پر تلخی نہیں، بلکہ ایک صاحبِ ایمان کی استقامت جھلکتی تھی۔ ان کی رہائی کے بعد بھی ان کے لہجے میں نفرت نہیں تھی؛ وہ بدلے نہیں، بلکہ اور نکھر گئے۔ یہ انہی کے اخلاقی ظرف کی بلندی تھی کہ انہوں نے انتقام کے بجائے اصلاح کو ترجیح دی۔ بطور سینیٹر، عرفان صدیقی نے پارلیمان میں جو گفتگو کی، وہ شائستگی، سنجیدگی اور علمیت کی علامت تھی۔ وہ شور نہیں مچاتے تھے، دلیل سے بات کرتے تھے۔ ان کا اندازِ بیان نپا تُلا، متوازن اور ہر لحاظ سے باوقار تھا۔ ان کی تقاریر میں صرف الفاظ نہیں، فکر بولتی تھی۔ ان کا وجود پارلیمان میں جیسے تہذیب کی ایک نئی روح بن کر آیا۔ عرفان صدیقی نے اپنے کالموں کے ذریعے جس انداز میں سماج، سیاست اور مذہب کے تعلق کو واضح کیا، وہ اردو صحافت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ سیاست کو اقدار سے جدا نہیں دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ طاقت علم اور اخلاق کے تابع ہونی چاہیے، اور اگر یہ توازن ٹوٹ جائے تو ریاست کا اخلاقی وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ان کی تحریریں دراصل اس فکری جدوجہد کی گواہی ہیں جو انہوں نے ایک صحافی کے طور پر انجام دی۔ عرفان صدیقی کے بارے میں ان کے قریبی دوست اور شاگرد اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ ”گفتگو میں ادب اور خاموشی میں وقار” کا پیکر تھے۔ وہ کسی سے اختلاف کرتے تو احترام کے ساتھ، اور تنقید کرتے تو اصلاح کے جذبے سے۔ وہ کسی کے لیے بھی تضحیک یا تمسخر کا لہجہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین بھی ان کے قلم کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے۔ ان کی علمی میراث صرف کالموں، تقاریر یا تحریروں تک محدود نہیں۔ وہ ایک فکری
تحریک کے علمبردار تھے جو پاکستان میں مکالمے، علم اور اخلاق پر مبنی سیاست کی ضرورت پر زور دیتی تھی۔ ان کا طرزِ تحریر آنے والی نسلوں کے لیے ابلاغ اور استدلال کا معیار ہے۔ عرفان صدیقی کے انتقال نے پاکستان کے فکری اور ادبی منظرنامے میں ایک گہرا خلا چھوڑ دیا ہے۔ ایسے لوگ محض شخصیات نہیں ہوتے، وہ عہد کی علامت بن جاتے ہیں۔ ان کا جانا دراصل اس فکری دنیا کا نقصان ہے جہاں علم، تہذیب اور شرافت اکٹھے سانس لیتے تھے۔ آج جب سیاست الزام تراشی، بدکلامی اور اخلاقی گراوٹ کی نذر ہو چکی ہے، عرفان صدیقی جیسے اہلِ قلم کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ وہ لکھنے سے پہلے سوچتے تھے، بولنے سے پہلے تولتے تھے، اور اختلاف کو دشمنی میں بدلنے نہیں دیتے تھے۔ ان کا طرزِ گفتگو ہمارے معاشرے کے لیے ایک سبق ہے — کہ شائستگی کمزوری نہیں، بلکہ اصل طاقت ہے۔ عرفان صدیقی کی زندگی علم و ادب، سیاست و شرافت، اور استقامت و خلوص کا حسین امتزاج تھی۔ ان کی یاد ایک چراغ کی مانند ہے جو بجھ تو گیا مگر روشنی چھوڑ گیا۔ قوم کو ایسے اہلِ قلم کی ضرورت ہمیشہ رہے گی، جو سیاست کو اخلاق سے، اور ریاست کو انسانیت سے جوڑ کر دیکھیں۔ عرفان صدیقی انہی خوش نصیبوں میں سے تھے۔
٭٭٭٭٭




