کالمز

شیخ حسینہ اور طاقت کا اژدھا

مطلق اور بے محابا طاقت کا شوق جنون میں ڈھل کر ایک ایسے پالتو اژدھا کی شکل اختیار کرتا ہے جو ایک روز پلٹ کر اپنے مالک کو ہی ہضم کرتا ہے۔طاقت کے جنون میں طاقتور حماقتیں کرتا جاتا ہے۔ اس کے کان مخالف آوازوں کو سننے اور اس کی آنکھیں مخالفت میں بلند ہاتھوں کو دیکھنے کی روادار نہیں رہتیں۔آئینہ خانے کے مکین کی طرح اسے چارں طرف اپنا ہی عکس نظر آتا ہے اور اس مسحور کن کیفیت میں وہ خالق کے قانون مکافات عمل کو یا مخلوق کے جذبات اور بگڑ جانے کی خو کو بھول بیٹھتا ہے۔کچھ مخالف آوازوں کو جیلوں میں ڈال دیتا ہے کچھ ناپسندیدہ چہروں کو شہر خموشاں کا مکین بنا دیتا ہے۔کچھ کے لب طاقت کی سوئی سے سی لئے جاتے ہیں اور باقی ماندہ زندہ لاشوں میں ڈھل کر رہ جاتے ہیں اور یوں آئینہ خانے کے مکین کو ہر طرف اپنا ہی عکس دکھائی دیتا ہے۔اس عالم ِ مستی میں ہونے والا ہر فیصلہ حماقت ثابت ہوتا ہے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا اقتدار بھی مطلق طاقت کے اژدھا نے چاٹ کھایا اور اب وہ بھارت میں اس عالم میں جلاوطنی کے دن گزار رہی ہیں کہ ملک کی ہوائیں اور فضائیں انہیں بلارہی ہیں نہ عوام ان کی آمد کی راہ تک رہے ہیں بلکہ ملک کی عدالتیں قانون اور انصاف ان کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہیں۔ملک میں قتل وغارت کی بنا پر عدالت نے انہیں سزائے موت سنا دی ہے۔شیخ حسینہ وطن سے بہت دور بھی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے پہلو میں بھارت کے ایک مہمان خانے میں براجمان ہیں۔ابھی مودی حکومت ایک اثاثہ سمجھ کر ان کی میزبانی کررہی ہے مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی بنگلہ دیش نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو حسینہ کی حوالگی کے ساتھ مشروط کیا تو یہی شیخ حسینہ بھارت کے لئے بوجھ بن جائیں گی۔بھارت نے ستر سال قبل تبت کے لیڈر دلائی لامہ کو اپنے ہاں پناہ دے کر چین کے ساتھ مستقل مخاصمت کی بنیاد رکھی تھی۔اب وہ شیخ حسینہ کی اسی انداز سے میزبانی پر مُصر رہا تو بنگلہ دیش کے ساتھ اس کے تعلقات میں مستقل خرابی کا ایک خودکار نظام وجود میں آئے گا۔ بین الاقوامی اور بین المملکتی تعلقات میں یوں بھی ایک وقت آتا ہے جب ملکوں کوافراد کے مقابلے میں ریاستی سطح کے تعلقات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو عراق اور لیبیااور یاسر عرفات کی جلاوطن حکومت سمیت کئی ملکوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا مگر بعد میں وہ حالات کوایک حقیقت کے طور پر قبول کرتے چلے گئے۔یہی معاملہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان شیخ حسینہ کیس کا ہے۔اس لئے اب پھانسی کا پھندہ جھول جھول کر شیخ حسینہ کا انتظار کرتا رہے گا۔شیخ حسینہ کے مظالم کا تعلق دوادوار سے تھا۔اس کا نیا پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھی جانے والی ہر قوت کو مٹاڈالنا چاہتی تھی۔اپنی قریب ترین حریف خالدہ ضیا ء کو وہ جیل میں ڈال کر بھول ہی گئی تھیں۔خالدہ ضیاء جیل گئی تھیں تو صحت اور توانائی کی اچھی حالت میں تھیں منظر اور موسم بدلا اور جیل کا پھاٹک اور طاقت کی پہنائی زنجیریں ٹوٹ گئیں تو وہ نحیف ونزار ویل چیئر کے ساتھ لگ چکی تھیں۔یہ تو موجودہ حریفوں سے ان کا انتقام تھا ماضی کے زخم مندل کرنے کے لئے انہوں نے معاشرے کو نئے زخم لگانا ضروری سمجھا اور مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے پھانسیوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔حالانکہ ان کے والد شیخ مجیب الرحمان ایک غیر تحریری معاہدے کے تحت ماضی کو دفن کرنے اور کسی سے انتقام نہ لینے کی یقین دہانی کر چکے تھے مگر شیخ حسینہ نے اپنے والد کی محبت سے سرشار ہو کر اپنے والد کے وعدوں کو ہی خلیج بنگال میں ڈبونے کا راستہ اختیار کیا۔یوں اکہتر میں متحدہ پاکستان کی حمایت میں وزن ڈالنے والے جماعت اسلامی مسلم لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں کو پھانسیاں دے کر اپنی انا کی تسکین کا راستہ چن لیا گیا۔جس سے بنگلہ دیش میں حالات کے تالاب کا پانی مزید گدلا ہو کر رہ گیا۔انہوں نے آخری وار کے طور پر اپوزیشن کی تمام آوازوں کو خاموش کرنے کے بعد انتخابات میں کامیابی کا سہرہ بھی اپنی جماعت عوامی لیگ کے سر سجالیا اور یوں وہ تاحیات حکمرانی کی راہوں پر تیزی سے بڑھتی چلی گئیں۔وہ کسی وقت کی دیوار اور شاہراہ یا کسی گاڑی پر لکھی ہوئی یہ عبارت اور جملہ تو نہ پڑھ بھی سکیں کہ ”تیز رفتاری باعث ہلاکت ہے“مگر عملی طور پر وہ اس حقیقت کا شکار ہوگئیں۔انہوں نے بنگلہ دیش کے عوام کی مزاحمانہ خُو بُو اور ماضی کو قطعی نظر انداز کیا۔بنگال برصغیر کا وہی خطہ تھا جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف تاریخی اور یادگار مزاحمت کی۔یہی وہ علاقہ تھا جس کی مٹی سے آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں ایسی جماعت نے جنم لیا تو قائم تو ایک سماجی اور تاج برطانیہ کی وفادار کے طور پر ہوئی تھی مگر آگے چل کر اس نے بر صغیر کے وجود کے اندر سے ایک نیا وجود تراشنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔وہ یہ بات بھول گئیں کہ جس بنگال نے مغربی پاکستان کے غلبے کو قبول نہ کر کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگانا پسند کیا وہ آزادیوں کا مزہ چکھنے کے بعد بھارت کی بالادستی اور غلامی کیونکر قبول کر سکتا ہے؟۔بنگلہ دیش کے عوام کا جمہوری شعور بھی جنوبی ایشیا میں سب سے مضبوط رہا۔جس دور میں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا ڈنکا بجتا تھا۔انہی دنوں بنگلہ دیش کے منظر پر جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت کا سورج بھی نصف النہارپر تھا۔حسین محمد ارشاد باغیانہ مزاج کے حامل بنگالیوں پر تاحیات حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔بنگلہ دیش جاتیہ پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنا کر وہ اپنے تاحیات اقتدار کو سیاسی چھتری فراہم کرنے اور اس کے ذریعے پارلیمانی تحفظ دینے کا سامان کرچکے تھے۔جب جمہوریت کے لئے بنگلہ دیشی عوام کی طلب کا پیمانہ چھلک پڑا تو حسین محمد ارشاد جیل میں تھے اور ان کی سیاسی شناخت جاتیہ پارٹی تاش کے پتوں کی مانند بکھر چکی تھی۔یوں وہ جنوبی ایشیا کے پہلے طاقتور آمر تھے جنہیں بنگلہ دیش کے عوام کے جذبہئ جمہوریت اور حریت نے قانون کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا۔یہ اعزاز بھی بنگلہ دیش کے عوام نے اپنے نام کیا اور جب مغربی پاکستان کے غلبے اور غلامی کے نام پر بنگلہ دیشی عوام کو بھڑکانے اور اُکسانے والے شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ نے حسین محمد ارشاد بننا شروع کیا تو طاقت کے ٹائی ٹینک کے آگے طلبہ نے اپنی نقد جاں کا آئس برگ سجادیا۔پھر وہی ہوا جو ایسے کھیل کا ابدی انجام ہوتا ہے۔

Related Articles

Back to top button