
مدارسِ دینیہ اسلامی معاشرے کی وہ مضبوط بنیاد ہیں جنہوں نے ہر دور میں دینِ اسلام کی حفاظت، اشاعت اور خدمت کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے۔ جب دنیا مادّی ترقی کے ہنگاموں میں گم تھی، اُس وقت مدارسِ دینیہ نے قرآن و سنت کی شمع کو روشن رکھا اور نسل در نسل علمِ دین کو سینوں سے سینوں تک منتقل کیا۔مدارس کا بنیادی مقصد محض تعلیم دینا نہیں بلکہ ایسے افراد کی تربیت کرنا ہے جو اخلاق، کردار اور عمل میں اسلام کے سچے نمائندہ ہوں۔ انہی اداروں سے علماء، آئمہ، خطباء، مفسرین اور فقہاء پیدا ہوئے جنہوں نے معاشرے کو فکری، روحانی اور اخلاقی رہنمائی فراہم کی اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مدارسِ دینیہ محدود وسائل کے باوجود لاکھوں طلبہ کو مفت تعلیم، رہائش اور خوراک فراہم کرتے ہیں۔ یہ ادارے عوام کے تعاون سے چلتے ہیں اور اخلاص، سادگی اور خدمتِ خلق کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ آج کے دور میں جہاں مدارس پر مختلف اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہاں یہ کہنا حق بجانب ہے کہ مدارسِ دینیہ نے ہمیشہ امن، اعتدال اور اصلاحِ معاشرہ کا درس دیا ہے۔ اگر کہیں انفرادی کمزوریاں موجود ہوں تو انہیں بنیاد بنا کر پورے نظام کو مورد الزام ٹھہرانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔۔۔ عصرِ حاضر میں مدارسِ دینیہ کا ایک عظیم اور قابلِ تحسین کارنامہ قوم کے سامنے آنا چاہیے۔ شاعری ہمیشہ سے خاص لوگوں کا خاصہ رہی ہے اور ہر دور میں اس کا معیار بھی مختلف رہا ہے مگر گزشتہ نصف صدی میں شاعری جس سمت جا رہی تھی وہ زیادہ تر مادّی دنیا کے گرد گھومتی دکھائی دیتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاعری پہلے دنیاوی اداروں کے مشاعروں تک محدود ہوئی اور پھر نائٹ قوالیوں جیسے رجحانات تک جا پہنچی۔ ایسے نازک وقت میں قوم کو اس کی اصل کی طرف لوٹانے کی جامع اور بامقصد کوشش کرنا مدارسِ دینیہ ہی کا فریضہ تھا اور الحمدللہ یہ فریضہ بخوبی نبھایا گیا۔ مرکزِ مصطفیٰ انٹرنیشنل کی جانب سے گیارہ ربیع الاول کو ایک عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں سیرتِ مصطفیٰ ﷺ پر منظوم ہدیہ پیش کیا گیا۔ اسی طرح جمادی الثانی میں خلیف? اول بلا فصل، حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے عرس کے موقع پر عالمی ادارہ تنظیمُ السلام کے زیرِ اہتمام ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں آپؓ کی عظمت، کردار اور خدمات پر قصائد پیش کیے گئے۔ یہ دونوں مشاعرے قوم کے لیے غیر معمولی طور پر مؤثر ثابت ہوئے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر بھی انہی سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے امت کے قرونِ اولیٰ کے حسین دور کو شاعری کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ مدارسِ دینیہ کی جانب سے قوم کی اصلاح کا ایک عملی مظاہرہ اور روشن مثال ہے۔اسی طرح مدارس کے طلبہ کا پاکستان کی ہر بڑی یونیورسٹی اور ادارے میں اول، دوم اور سوم پوزیشنز حاصل کرنا ایک الگ اور مستقل موضوع ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مدارسِ دینیہ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ علمی اور عصری میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔۔!
خلاصہ یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ محض تعلیمی ادارے نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے فکری، روحانی اور تہذیبی محافظ ہیں۔ جنہوں نے ہر دور میں بدلتے ہوئے حالات کا سامنا حکمت، بصیرت اور اعتدال کے ساتھ کیا اور دینِ اسلام کی اصل روح کو زندہ رکھا۔ چاہے میدانِ تعلیم ہو، اصلاحِ معاشرہ ہو یا ادب و ثقافت کی تطہیر۔۔۔ مدارسِ دینیہ نے ہر محاذ پر اپنی موجودگی کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارسِ دینیہ کو شکوک و شبہات کی عینک سے دیکھنے کے بجائے ان کی خدمات کو دیانت داری سے پرکھا جائے، ان کے ساتھ تعاون کیا جائے اور ان کے مثبت کردار کو مزید فروغ دیا جائے۔ کیونکہ جب تک مدارسِ دینیہ مضبوط رہیں گے ہماری دینی شناخت، فکری سمت اور اخلاقی اقدار محفوظ رہیں گی۔



