
قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے موقع پر تقسیم کشمیر کی عالمی سامراجی ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے وزارت خارجہ کے اہم ترین حساس منصب سے مستعفیٰ ہو کر خوداری جرآت مندانہ انداز بہادری اور قومی غیرت کی ابتداء کی جس کے فوری بعد انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد اسلام ہمارا دین سوشل ازم ہماری معشیت جمہوریت ہماری سیاست طاقت کا سر چشمہ عوام کے چار رہنما اصولوں پر رکھی اور روٹی کپڑا اور مکان کے بنیادی انقلابی معاشی فلسفے نے پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جواں سال ذوالفقار علی بھٹو کو آسمان سیاست کی بلندیوں پر پہنچا کر قائد عوام کے خطاب سے نواز دیا قائد عوام نے بھی عوام ایسی اصطلاحات کا نفاذ عمل میں لانے کیلئے دن رات محنت سے کثیر المقاصد پالیسیوں کی بنیاد رکھی جن کے ثمرات عوام سے شروع ہو کر عوام تک اختتام پذیر ہوتے تھے ہیں اور رہیں گے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو قومی و عالمی امور کی کما حقہ انجام دہی کے ساتھ اپنی لاڈلی ذہین فطین بیٹی بے نظیر بھٹو کی تربیت مستقبل کی قیادت تیار کرنے کی جستجو سے کی اور پھر چشم فلک نے دیکھا وہ اپنی والدہ مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو کے شانہ بشانہ ان گنت نظریاتی پیروکاروں کے ساتھ بدترین مارشلا کا مقابلہ کیا جلاوطنی کی سزائیں کاٹیں بوگس مقدمات کا سامنا کیا اور آخر کار انھیں اللہ رب العزت نے سرخرو کیا دس اپریل انیس سو چھیاسی میں پاکستان واپسی تشریف لائیں تو انھوں نے لاہور کے تاریخی شہر کا انتخاب کیا چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر گلگت بلتستان سے عوام اپنے قائد شھید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ایسے آمڈ آئے جیسے شہید پر مکھیاں آور شمع پر پروانے نچھاور ہو جاتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کی پہلی پاکستانی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے کا اعزاز عطا کیا اور جہد مسلسل سے پاکستان کے وقار تشخص کیلئے آئین قانون کی حکمرانی جمہوریت کے استحکام مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے سرتوڑ کوششوں پر توجہ مرکوز کر دی قارئین کرام قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو ناکردہ گناہوں کی انتقامی روش کی بھینٹ چڑھ کر جب پس زنداں تھے تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا جنم دن آ گیا غور کریں عالمی انقلابی لیڈر شھید ذوالفقار علی بھٹو اپنی بہادر بیٹی کو کیا تحفہ دیتے ہیں وہ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میری پیاری بیٹی آج تمہارا سالگرہ ہے اور میں سلاخوں کے پیچھے قید ہوں اور یہاں سے ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا اس وجہ سے میں تمہیں کیا تحفہ دوں ہاں مگر آج میں آپ کو ایک تحفہ دینے جارہاہوں کیونکہ تم ایک پرانی تہذیب کی وارث ہو تمہیں اس ملک کی قیادت اور عوام کی رہنمائی کرنی ہے جس طرح ماں کے قدموں تلے اخرت کی جنت ہے اسی طرح عوام کے پیروں کے نیچے دنیا کی جنت ہے اس لئے میں عوام کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دیتا ہوں انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑنا کم عمری میں اپنے باپ سے کیا گیا وعدہ دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے والد محترم دو سگے بھائیوں اور بے شمار جیالوں کے ہمراہ آپنی جان جان آفریں کے سپرد کر کے پورا کر دکھایا اور دہشت گردوں انتہا پسندوں سے لڑتے لڑتے پاکستان بچانے اور سبز ہلالی پرچم سربلند رکھنے کیلئے لیاقت باغ کے وسیع وعریض میدان میں عوام کے درمیان جام شہادت نوش کر لیا قارئین
پاکستان پیپلز پارٹی کی 58 سالہ تاریخ اس ملک کی سیاست میں نہ صرف سب سے لمبی بلکہ سب سے زیادہ بھاری رسیدوں والی تاریخ ہے۔ جس وقت 1967 میں بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی، اُس وقت نہ نون لیگ تھی نہ تحریک انصاف، نہ کوئی خلائی مخلوق کی پسندیدہ جماعت۔ بھٹو نے جب روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو اسٹیبلشمنٹ کی راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں لے کر وہ کام کیا جو آج کی سیلیکٹڈ یا ریکارڈ توڑ کارکردگی کے دعویداروں کی کئی نسلیں مل کر بھی نہیں کر سکتیں۔ 1973 کا آئین بنا، ایٹمی پروگرام شروع ہوا اسٹیل مل بنی مزدوروں کے حقوق تحریری شکل میں آئے وہ سب کچھ جو آج نون لیگ اپنی تشہیر میں اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی قربانیاں دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ جماعت پاکستان نہیں بلکہ پورے برصغیر کی قیمت ادا کر رہی تھی۔ بھٹو کو عدالتی قتل کر کے راستے سے ہٹا دیا گیا ہزاروں کارکن جیلوں میں ڈالے گئے سینکڑوں کوڑے مارے گئے۔ ضیا الحق نے پوری ریاست مشینری جھونک دی مگر پیپلز پارٹی پھر بھی نہ ٹوٹی۔ مقابلے میں نون لیگ کا جمہوریت صرف اس وقت جاگتا ہے جب اُن کی اپنی حکومت جاتی ہے ورنہ وہی نون لیگ ہے جو ضیا کے دور میں اُس کی گود میں پلی اور آج بھی جب حالات سخت ہوں تو اصول پسندی فوراً سیاسی مفاہمت میں بدل جاتی ہے۔
بینظیر بھٹو نے دو حکومتیں چلائیں مگر دونوں بار اسٹیبلشمنٹ نے قلم چلا کر حکومت ختم کروائی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنی ہمت بی بی نے دکھائی، اتنی ہمت نون لیگ نے کبھی نہیں دکھائی بس مجھے کیوں نکالا والا دکھ اور پھر این آر او کی ڈیل۔ دوسری طرف تحریک انصاف کا حال یہ ہے کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہی اپنے سیاسی والد کا نام بدل چکے تھے اور آنے کے بعد ہر اُس ادارے کے سائے میں بیٹھے رہے جس کے آشیرباد کے بغیر اُن کی سیاست کا ایک جلسہ بھی نہ ہوتا۔ وہ جماعت جس نے 2018 میں پورے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لے کر حکومت لی، آج خود کو قربانی کا بکرا بنا کر مظلومیت کا ڈھول پیٹتی ہے۔
2008 میں جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اس وقت نون لیگ صرف بیانات دے رہی تھی، اور تحریک انصاف صرف کنٹینر تلاش کر رہی تھی۔ پیپلز پارٹی نے اٹھارویں ترمیم لا کر صوبوں کو طاقت دی این ایف سی ایوارڈ ٹھیک کیا صدارتی اختیارات واپس کیے، اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا یہ سب وہ کام ہیں جن پر آج نون لیگ اور تحریک انصاف دونوں سیاست چمکاتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب پیپلز پارٹی کے کارنامے ہیں۔ یہی وہ حکومت تھی جس نے مشرف کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ پیپلز پارٹی نے آمر کو رخصت کیا جبکہ نون لیگ اُس کے ساتھ تین بار بیٹھ چکی تھی، اور پی ٹی آئی بعد میں اُسی کے وارثوں کی آغوش میں پروان چڑھی۔
سندھ پچھلے پندرہ برس سے پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور اس دوران سندھ نے وہ منصوبے کھڑے کیے جس پر نون لیگ اور پی ٹی آئی صرف پریس کانفرنسیں کر سکتی ہیں۔ تھر کول پورے ملک کے لیے بجلی بنا رہا ہے سندھ کا ہیلتھ سسٹم ملک میں سب سے منظم ہے اور 2022 میں جب پورا ملک سیلاب سے ٹوٹ رہا تھا تو عالمی امداد بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کی ٹیم کی سفارتکاری سے آئی۔ نون لیگ اس وقت اپنے مقدمے سنبھال رہی تھی جبکہ تحریک انصاف جلسوں میں ناچ گانوں پر مصروف تھی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کم عمر ترین وزیر خارجہ بن کر دنیا میں پاکستان کا مقدمہ اس طرح لڑا کہ بڑے بڑے تجربہ کار سفارتکار حیران رہ گئے۔ 97 ملکوں میں پاکستان کا نرم امیج بحال ہوا 9 ارب ڈالر کی عالمی امداد آئی اور مخالفین اس دوران صرف بیانیہ بیچتے رہے۔ جن جماعتوں نے سیاست کو یا تو خاندانی جائیداد سمجھا ہوا ہے یا ایجنسیوں کی خیرات پر کھیلا وہ بھلا پیپلز پارٹی کی 58 سالہ نظریاتی سیاست کے سامنے کیا رکھ سکتی ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک میں اگر کوئی جماعت فیڈرل نظریاتی عوامی اور قربانیوں والی ہے تو وہ صرف پیپلز پارٹی ہے باقی سب یا تو اقتدار کے موسمی پرندے ہیں یا سیاسی کنٹینر پر چڑھی عارضی آوازیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے فرزند مدبرانہ انداز سیاست سے اگے بڑھنے والے چیئرمین بلاول بھٹو کے پاس ہے جنھوں نے فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر کی قیادت میں معرکہ حق بنیان مرصوص میں وطن عزیز کو ملنے والی تاریخی فتح کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کے اصولوں مبنی پالیسیوں کا دفاع کیا ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی سفارتکاری کا فریضہ سر انجام دیا اور آزاد کشمیر میں پاکستانیت کے خلاف بھیانک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے نظریاتی حکومت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا صدر پاکستان آصف علی زرداری چیئرمین
بلاول بھٹو سیاسی امور کی چیئرپرسن محترمہ فریال تالپور کی ھدایت پر میدان سیاست کے انمول مدبر معتبر اعلیٰ ظرف جہاندیدہ زیرک سیاستدان کراچی سے کشمیر تک کارکنوں کی آواز چوہدری ریاض نے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کو سولہ سے چھتیس کے ہندسے تک پہچانے میں کیا کیا پاپڑ بیلے دن کا سکون رات کی نیدیں چاٹ کیں سینئر پارلیمنٹرین سپیکر قانون ساز اسمبلی چوہدری لطیف اکبر پارٹی صدر چوہدری محمد یاسین نے کمال برداشت سے جواں سال پارلیمنٹرین صبر و تحمل کے کوہ ہمالیہ دلوں کے حکمران راجہ ممتاز حسین راٹھور کے با صلاحیت بیٹے فیصل ممتاز راٹھور کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرنے کی بلند و بالا سوچ سے قیادت کے فیصلوں کا احترام کیا وزارت عظمیٰ پر فائز ہو کر راجہ فیصل ممتاز راٹھور نے ایک ماہ کے دوران وہ کار ہائے نمایاں انجام دیئے جو بیس سال انکے اقتدار کی مظبوط بنیاد ثابت ہو گی آج ہم پیپلز پارٹی اسکی قیادت اور جانیں نچھاور کرنے والے جیالوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس تجدید عہد اور عزم وفا کے ساتھ کہ ہم سب سے پہلے پاکستان اب راج کرے گی خلق خدا جو تم بھی ہو میں بھی ہوں کیلئے میدان عمل میں برسر پیکار رہیں گے جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو بے نظیر کا نام رہے گا پاکستان زندہ آباد کشمیر پائندہ آباد، بھٹو شہید اور بی بی شھید کی لازوال داستان کیلئے کیا خوب شعر نے،
یہ کس نے کہا ہے ہم سے لہو کا خراج مانگا ہے،
ابھی تو ائے تھے مقتل کو سرخرو کر کے




